ایک دفعہ کا ذکر ہے۔دور ایک بہت بڑے جنگل میں ایک بہت بوڑھاخرگوش رہتا تھا۔سب جنگل والے اُسے بابا گوشی کے نام سے پکارتے تھے۔بابا گوشی کی عمر پچاس سال ہوگئی تھی۔اُس کے سب رشتے دار وفات پا چکے تھے۔دس سال پہلے اُس کی بیوی بھی ایک’’بھیڑیے‘‘ کو پیاری ہوگئی تھی۔یوں اب وہ اپنے گھر میں بالکل اکیلا زندگی کے آخری دن گن رہا تھا۔
بابا گوشی بہت کمزوراور غریب تھا۔ اُس کے پڑوسی بہت اچھے اور نیک دل تھے جو اُس کی خدمت کر دیا کرتے تھے،خاص طور پر اُس کی پڑوسن ٹینا گلہری اور موٹا بھالو تو بہت ہی اچھے تھے۔اُس کا بہت خیال رکھتے تھے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔آج صبح ہی سے بابا گوشی کی طبیعت بہت خراب تھی۔ کچھ دن پہلے ہی بندر خبردارکے ذریعے جنگل کے جانوروں کو معلوم ہوا تھا کہ شہر وں میں سانس کی ایک بیماری ’’کورونا‘‘ پھیل رہی ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔
تب سے جنگل کے سب جانوربہت پریشان ہوگئے تھے اور سب نے احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر رکھا تھا۔
بابا گوشی بھی ماسک لگائے رہتا تھا،مگر آج صبح سے ہی اسے ہلکا ہلکا بخار اور کھانسی ہورہی تھی۔آج موسم بھی بہت خراب تھا۔آج صبح بابا گوشی نے ریڈیو پر سنا تھا کہ آج شام میں زبردست طوفان آئے گا۔مگرطوفان کو شاید بہت جلدی تھی، وہ شام سے پہلے دوپہر ہی میں آگیا۔
تیز ہواؤں سے پورے جنگل میں بھونچال سا آگیا۔ درختوں سے تیز ہوائیں ٹکراٹکرا کر خوفناک آوازیں پیدا کر رہی تھیں، جن سے ننھے منے جانوروں کے دل دہل رہے تھے۔
طوفان کی شدت کے ساتھ ساتھ بابا گوشی کی کھانسی میں بھی شدت آرہی تھی۔ اب اسے رہ رہ کر کھانسی کا دورہ پڑ رہا تھا اور وہ کھانس کھانس کر بے حال ہو رہا تھا:
’’کھوں کھوں کھوں… کھوں کھوں کھوں…ہائے کیا کروں؟‘‘بابا گوشی بے چارہ چِلاّ اُٹھا۔
’’ہائے…اُف…ڈاکٹر اُلّو نے بتایا تھا کہ اِس نامراد وبا میں بہت کھانسی ہوتی ہے… اُس کے لیے جنگل میں جھیل کنارے جو گھاس اگتی ہے…اُس کا قہوہ پینے سے… کھانسی اور بخار صحیح ہو جاتا ہے… ہائے مگر مجھ بڈھے کو وہ کون لا کر دے گا… ہائے!‘‘
وہ رونے لگا۔
پھر وہ ہمت کر کے اُٹھا۔اپنی لاٹھی اٹھائی اور کھانستے کھانستے باہر کی طرف چل پڑا۔
دروازہ کھولتے ہی تیز ہوا سے وہ ہل کر رہ گیا۔آندھی چل رہی تھی۔ پورا محلہ سنسان اورگلی ویران پڑی تھی۔ بیماری کے ڈر اور طوفان کی وجہ سے سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔بابا گوشی بھی بہت ڈرا ہوا تھامگر مرتا کیا نہ کرتا، ہمت کر کے وہ آگے بڑھا… مگر ابھی وہ دو چار قدم چل کر ٹینا گلہری کے دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ تیز ہوا سے اُس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ گر پڑا۔اُس کے حلق سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔
’’کیا ہوا؟… بابا گوشی کیا ہوا؟‘‘ یہ ٹینا گلہری کی آواز تھی، بابا گوشی کی آواز سن کر باہر آئی تھی۔
بابا گوشی نے ہانپتے ہوئے اسے ساری بات بتائی۔
’’بابا گوشی!… آپ بالکل پریشان نہ ہوں… میں موٹے بھالو کے ساتھ جاکر وہ گھاس لے آؤں گی، آپ گھر پر آرام کریں۔‘‘
اُس نے بابا گوشی کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا اور واپس اُن کے گھر لے جا کر اُن کے پلنگ تک پہنچایا۔
پھر وہ تیزی سے دروازہ بند کرکے باہر نکلی اور دو گھر چھوڑ کر موٹے بھالو کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانے لگی۔
موٹا بھالو اِس وقت شہد پی رہا تھا، دستک کی آواز سن کر پریشان ہوگیا۔
اُس نے دروازہ کھولا توسامنے ٹینا گلہری تھی۔
ٹینا نے موٹے بھالو کو جلدی جلدی ساری بات بتائی تو موٹا بھالو فورا ًمدد کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
بس پھر کیا تھا…
ٹینا گلہری موٹے بھالو کے کندھے پر بیٹھ گئی اور موٹے بھالو نے اللہ کا نام لے کر جھیل کی طرف دوڑ لگا دی۔
شدید طوفانی ہواؤں اوربارش کا مقابلہ کرتے ہوئے دونوںجھیل کے پاس جنگلی گھاس تک پہنچ گئے۔اُنھوں نے گھاس کے تنکے توڑے اور واپسی کے لیے مڑ گئے۔
طوفان سے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔کئی درخت تو اُن کے سامنے ہوا سے گرے بھی، مگر وہ حفاظت کی دعا پڑھتے بچتے بچاتے واپس اپنے محلے پہنچ ہی گئے۔
بابا گوشی کے گھر سے زور زور سے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔
موٹا بھالو تو بابا کے گھر میں نہیں آ سکتا تھا، اُس نے ٹینا گلہری کو بابا کے دروازے پر اتارا اور خود باہر بیٹھ گیا۔
ٹینا گلہری تیزی سے اندر گئی۔بابا کو تسلی دی اورجلدی سے ایک کونے پربنی ہوئی انگیٹھی میں کوئلوں کو دہکانے لگی، کوئلوں نے آگ پکڑی تو اس ن ے چولھے پر ایک پتیلی میں گھاس کے تنکے اور پانی ڈال کر چڑھا دیا۔پھر اس نے دروازہ کھول کر موٹے بھالو کو تھوڑا شہد لانے کو کہا۔
موٹا بھالو بھاگ کر اپنے گھر سے شہد لے آیا۔
ٹینا گلہری نے تھوڑا سا شہد گھاس والے پانی میں ڈالااور تھوڑا شہد ڈال کر بابا گوشی کے لیے گاجر کا حلوہ بنا لیا۔گاجریں بابا کے گھر میں کافی ساری تھیں۔
جھیل والی گھاس کی عجیب خاصیت تھی کہ جیسے ہی پانی میں جاتی تھی، پانی نیلا ہو جاتا تھا۔
تھوڑی دیر میں نیلا نیلا پانی ابلنے لگا تو ٹینا نے جلدی سے اسے چھانا اور بابا گوشی کو ایک پیالے میں نکال کر پلانے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں بابا گوشی کی طبیعت بہت سنبھل چکی تھی۔وہ اب بہت سکون میں تھے۔
کھانسی میں فورا ًآرام آگیا تھا۔
اب ٹینا گلہری نے انھیں نرم نرم گاجر کا حلوہ نکال کر دیا، کیوں کہ بابا کے لیے اِس عمر میں ثابت گاجریں کھانا بہت مشکل ہوتا تھا، پھر اب وہ بیمار بھی تھے۔
حلوہ کھا کر بابا گوشی نے نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ٹینا اور موٹے بھالو کو دعائیں دینا شروع کردیں۔
ٹینامسکرائی ،انھیں کمبل اوڑھایا اور صبح آنے کا کہہ کر باہر چلی گئی۔ موٹا بھالو ابھی تک باہر بیٹھا تھا۔
ٹینا نے اسے بابا کی حالت کا بتایا تو وہ بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
٭…٭