یتیم بچے…عظیم لوگ

اُن عظیم لوگوں کا تذکرہ…جو بچپن میں یتیم ہوگئے تھے… لیکن انھوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی بدولت دنیا پر راج کیا

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم (امام بخاریؒ)
امام بخاری ۱۹ جولائی ۸۱۰ء کو اُز بکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ ابھی کم سِن ہی تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔امام بخاری ؒ کو بچپن ہی سے حدیثیں یاد کرنے کا بہت شوق تھا۔۱۰ سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام وکیع کی روایت کردہ تمام احادیث حفظ کر لیںاور ۱۸ سال کی عمر میں ایک تصنیف شروع کی جس میں صحابہ و تابعین کے فیصلے اور مختلف اقوال موجود تھے۔
امام بخاریؒ کا حافظہ انتہائی قوی تھا اور آپ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔محمد بن حاتم ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’امام کو احادیث کا اتنا شوق تھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھ کر چراغ روشن کر کے مطالعے میں مشغول ہوجاتے۔صحیح بخاری احادیث کی سب سے مستند کتاب ہے ،اس کی تالیف کا کام امام بخاری نے ہی انجام دیا۔آپ ایک حدیث کو حاصل کر نے کے لیے میلوں تک پیدل سفر کرتے اور انتہائی کڑی شرائط کے ساتھ راوی سے حدیث لیتے۔جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے اور پھر دو رکعت نفل ادا کرکے حدیث تحریر فرماتے۔یوں آپ نے ۱۶برس میں صحیح بخاری کی تالیف کا کام مکمل کیا۔صحیح بخاری کے علاوہ بھی امام کی بہت سی تصانیف ہیں۔(زمانہ طالب علمی میں آپ کو کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا مگر آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کسی سے ذکر نہ کرتے)۔
آپ ۲۵۰ھ میں نیشا پور تشریف لے گئے۔وہاں کے عوام اور علما نے آپ کا بھر پور استقبال کیا۔آپ کے عالی مرتبے اور شہرت سے حسد کرنے والے کچھ لوگوں نے آپ پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کردیے جن سے تنگ آکر آپؒ نے بخارا کا رُخ کیا۔وہاں زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حاکم نے پیغام بھجوایا کہ آپ ہمیں اپنی کتاب بخاری سنایا کریں، اس خط کے جواب میں امام نے فرمایا کہ یہ دین کا علم ہے اور اگر اسے حاصل کرنے کی تڑپ ہے تو میرے گھر پر یا عام مجلس میں آیا کرو۔ حاکم کو یہ بات ناگوار گزری اور اُس نے آپ کو شہر سے نکال دیا۔اس کے بعد امام سمرقند چلے گئے اور وہیں آپ ؒ یکم شوال ۲۵۶ھ کو انتقال کرگئے۔


شیخ احمد یاسین (حماس کے بانی)
شیخ احمد یاسین ؒ ۱۹۳۶ء کو غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی آپ چار سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا،جس کے بعد گھر کی کفالت کی ذمہ داری بڑے بھائی نے سنبھال لی اور آپ کو مدرسے میں داخل کروادیا۔ابھی آپ چہارم جماعت میں تھے کہ یہودیوں نے گھر سے بے گھر کردیا اور آپ کے خاندان کو سمندر کنارے مہاجر کیمپ میں منتقل ہونا پڑا۔۱۶ سال کے تھے کہ ساحلِ سمندر پر ورزش کے دوران گردن کے مہرے ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے نچلے دھڑ کا مکمل حصہ فالج زدہ ہوگیا۔آپ نے ایسی حالت میں بھی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور ۱۹۵۸ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان اول پوزیشن سے پاس کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے غزہ کے اسکول میں بحیثیت عربی و دینیات کے مدرس فرائض انجام دینے شروع کیے۔
آپ نے پہلے ہی دن سے طے کیا کہ ہونہار طلبہ کو اپنے گرد لے کر آئیں گے اور انھیں دین کی طرف بلائیں گے۔استاد احمد یاسین نے اخوان المسلمون سے سیکھا ہوا سبق نئی نسل تک منتقل کرنا شروع کردیا۔ اس محاذ پر شیخ کو بہت سے معرکے بھی پیش آئے جن کا آپ نے ہمت اور جواں مردی سے سامنا کیا۔آپ نے اس کے علاوہ غزہ کی مسجد میں خطابت کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا حلقہ اثر وسیع ہوتا چلا گیا۔ آپ نے غزہ میں ایک تحریک برپا کرکے یہودیوں کے قبضے میں آنے والے شہروں میں جاکر بے آباد ہونے والی مسجدوںکو پھر سے آباد کرنا شروع کردیا۔غریب گھرانوں کی مدد کے لیے رفاہی ادارے قائم کیے اور نئی نسل میں جہادی روح کو بیدار کیا۔شیخ یاسین جس تندہی سے جہادی نرسری تیار کر رہے تھے دشمن اس سے غافل نہ تھا ۔ اس نے لوگوں پر پابندیاں لگائیںاور جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیالیکن فلسطینیوں کے عزم کو کمزور نہ کر سکا۔ منبر و محراب سے شروع ہونے والی اس تحریک کو شیخ نے حماس کا نام دیا جس کے جوان آج بھی پتھر اور غلیل اٹھائے غاصب یہودیوں کے سامنے بر سرِ پیکار ہیں۔ ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو فجر کی نماز کے بعد فلسطینی قوم کے اس عظیم رہنا اور سپہ سالار کو میزائل حملہ میں شہید کر دیا گیا۔


نیلسن منڈیلا(افریقا کے سابق صدر)
نیلسن منڈیلا ۱۸ جولائی ۱۹۱۸ء کو جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گائوں ماویزو میں پیدا ہوئے۔ منڈیلا نے ابتدائی تعلیم ایک چرچ سے حاصل کی ۔ جب ۹ سال کی عمر کو پہنچے تو والد کا پھیپھڑوں کے مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد میکازوینی منتقل ہوگئے جہاں آپ کی پرورش امیرِ شہر نے کی۔
میکازوینی میں اُنھوں نے انگریزی ، جیوگرافی اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی ۔
منڈیلا افریقا میں نسلی و رنگی امتیازات کے سخت خلاف تھے۔انھوں نے ۱۹۴۲ء میں افریقن نیشنل کانگریس میں حصہ لیا اور انگریزوں کے افریقیوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ۱۹۶۳ء میں حکومت نے ان کو جلائو گھیرائو اور تشدد کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ منڈیلا نے اپنی زندگی کے ۲۷ سال جیل میں گزارے۔ جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا نے مذاکرات کا راستہ اپنایااور افریکن نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۴ء کے جمہوری الیکشن میں منڈیلا افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے جس کے بعد اُنھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں افریقہ سے نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے میں صرف کیں۔۵سال کی صدارت کے بعد منڈیلا نے خود کو سیاست سے الگ کر کے سماجی خدمات کے لیے وقف کر دیا۔افریقی قوم کے اس عظیم رہنما نے ۵ دسمبر ۲۰۱۳ء کو جوہانسبرگ میں وفات پائی۔


ارسطو(معروف فلسفی)
ارسطو ۳۸۴ قبلِ مسیح میں یونان کے ایک قدیم شہر استاگرہ میں پیدا ہوا۔ ارسطو نے طب، ریاضی اور طبیعات کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا، جب دس سال کا ہوا تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔۱۸ سال کی عمر میں ارسطو ایتھنز چلا گیاجو اُس وقت علم و حکمت کا مرکز تھا۔ یہاں اس نے اپنے استاد افلاطون Platoسے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ارسطو صرف فلسفی ہی نہیں تھا بلکہ وہ علمِ حیوانیات، ریاضی، سیاسیات اور علمِ اخلاقیات پر قدیم علما کے نزدیک صاحب الراے مانا جاتا تھا۔ ارسطو کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے زیادہ ہے۔۳۳۵ قبلِ مسیح میں ایتھنز میں اپنے اسکول کی بنیاد ڈالی جہاں اس نے علمی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ اخیر عمر میں اپنے شاگرد سکندرِ اعظم کے نظریات سے اختلاف اور اس کی موت کے بعد یونان سے کوچ کر گیا۔ ارسطو نے ۷ مارچ ۳۲۲ قبلِ مسیح کو وفات پائی۔


ایگر ایلن پو
مشہور انگریزی شاعر اور ادیب ایگرایلن پو،۱۹ جنوری ۱۸۰۹ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا۔’ پو‘ کے والد اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی اسے چھوڑ گئے اورتین سال کی عمر میں ماں کی ممتا سے بھی محروم ہوگیا۔پو کے یتیم ہوجانے کے بعد جان اور ایلن نے لڑکپن تک اس کی پرورش کی۔ ’پو‘ کی زندگی میں مشکلات تب شروع ہوئیں جب وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گیااور ایک سال کے اندر ہی اسے فیس ادا نہ کرنے پر جامعہ سے نکال دیا گیا۔ ’پو‘ نے اپنے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور یہیں سے اس کے ادبی کیرئیر کا آغاز ہوا۔اس کی پہلی نظم Tamerlane ۱۸۲۷ء میں ــ’’بوسٹن کا شہری‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے بہت پذیرائی ملی۔ وہیں سے اس نے محسوس کیا کہ اسے فوج کی نوکری کے بجاے ادب پر توجہ دینی چاہیے۔ ’پو‘ ایک اچھا شاعر اور ذہین نقاد تھا لیکن بین الاقوامی طور پر اپنے افسانوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ پو عجیب الخلقت اور ڈرائونے ادب کا استاد اور سائنسی کہانیوں کا بانی اور ساتھ ہی ساتھ سراغرساں کہانیوں کا موجد بھی تھا ۔ پو کا انتقال ۷ اکتوبر ۱۸۴۹ء کو چالیس سال کی عمر میں بالٹیمور میں ہوا۔


محمد بن قاسم(عظیم فاتح)
محمد بن قاسم ۶۹۴ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباً پانچ سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ غربت کی وجہ سے اعلا تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت اُنھوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلا عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔پندرہ سال کی عمر میں سِن ۷۰۸ء میں ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے انھیںسپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی ۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر سترہ برس تھی۔اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور سترہ سال کی عمر میں انھیں سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کیے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی ماہ بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کابھی۹۶ھ میں انتقال ہوگیا۔ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشیں مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کو حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں گرفتار کر کے دمشق بھیج دیا۔ سلیمان نے انھیں قید خانے میں بند کروادیا۔ ۷ ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ ۷۱۵ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔


٭…٭

ایک باہمت رہنما

ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنمامولانا محمد علی جوہر ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو ہی سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ آپ کو بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ آپ نے بی اے کا امتحان الٰہ آباد یونیورسٹی سے اول پوزیشن میںپاس کیا۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی اور واپسی پرکلکتہ جا کر انگریزی اخبارکامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جانے لگا۔ انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی خوب تھی۔
مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۱۹ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔
جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے اور وہاں آپ نے آزادیٔ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ آپ کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔

سب سے بڑا پرندہ

شتر مرغ دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے جو صرف براعظم افریقا کے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ شتر مرغ دنیا کا وہ واحد پرندہ ہے جو اُونٹ جتنا بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ غول کی صورت میں رہتے ہیں۔ غول ایک سردار ہوتا ہے۔ جس کی رہنمائی میں غذا تلاش کرتے ہیں۔
خاندان:
شترمرغ کا تعلق پرندوں کے اُس خاندان سے ہے جو اُڑ نہیں سکتے۔ شتر مرغ کے خاندان میں کیوی، ایمو،ریا اور کیسوری قابل ذکر ہیں۔
اقسام:
چار قسم کے شترمرغ بہت مشہور ہیں۔
۱۔جنوبی شتر مرغ۔۲۔مسائی شترمرغ۔۳۔سرخ گردن والا شتر مرغ۔۴۔صومالی شتر مرغ
جنوبی شتر مرغ صرف جنوبی افریقا کے ممالک میں ملتی ہے۔ اس کے پرَ بہت گھنے اور سیاہ ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے پرَوں کی وجہ سے ہی شوق سے پالتے ہیں۔
مسائی شتر مرغ افریقی ممالک، کینیا،تنزانیہ،ایتھوپیااور صومالیہ میں ملتی ہے۔ اس کے سر پر چھوٹے چھوٹے پرَ ہوتے ہیں۔
سرخ گردن والا شتر مرغ کو شمالی افریقی شتر مرغ بھی کہتے ہیں۔ تمام اقسام میں اس کی لمبائی سب سے زیادہ ہے۔ سرخ گردن اس کی خاص پہچان ہے۔ نر کے پرَسیاہ اور مادہ کے سرمئی ہوتے ہیں۔
جسم
شترمرغ اُونٹ کی طرح لمبا چوڑا، مضبوط ،لمبی ٹانگوں ، سخت چونچ اور لمبی گردن والا دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے۔ شتر مرغ اپنی لمبی ٹانگوں کی مدد سے ۷۰کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کا تیز ترین پرندہ بھی ہے۔
قد، عمر، وزن:
شتر مرغ کا اوسط وزن ۷۵تا ۱۰۰کلوگرام جبکہ قد ۷فٹ تک ہوتا ہے۔ تاہم ۱۶۰؍کلوگرام سے زیادہ وزنی اور ۱۰فٹ سے اُونچے شتر مرغ بھی دیکھے گئے ہیں۔شتر مرغ کی اوسط عمر ۴۵سال ہے۔
آواز:
شترمرغ بہت کم آواز نکالتا ہے۔ خطرے کے وقت وہ شیر کی طرح غُراتا ہے۔عام حالات میں اس کی آوازتیز سیٹی جیسی ہوتی ہے۔
انڈا:
شترمرغ کا انڈا دنیا کے سارے پرندوں کے انڈوں سے بڑا ہے۔ اس کے انڈے میں مرغی کے ۲۵؍انڈے آسکتے ہیں۔ ۶؍انچ چوڑے اور ۱۵؍انچ لمبے اس انڈے کا وزن ڈھائی کلو گرام تک ہوتا ہے۔ مادہ شتر مرغ جھاڑیوں یا کسی کھوہ میں ۱۵سے۲۰تک انڈے دیتی ہے۔ تقریباً ۴۰دن کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔

aik makda or makhi

ایک مکڑا اور مکھی

اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا
لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا
غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا
آ ؤجو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا
مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت !کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا
اِس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا
مکڑے نے کہا واہ !فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اِس میں نہیں تھا
اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے ُاس میں بُرا کیا
اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا
مکھی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کے گھر آؤں یہ امید نہ رکھنا
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی اُن پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا
مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اُس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
یہ سوچ کے مکھی سے کہا اُس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ
ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا
یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی
پھر اُس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا

Traffic light

لال ہری بتی

ٹیٹو نے اک ڈنڈا گاڑا
تھوڑا سیدھا تھوڑا آڑا
بِلّو صحن میں خوش خوش آئیں
شیشے کے کچھ ٹکڑے لائیں
اک شیشہ تھا لال رنگیلا
ایک ہرا تھا ایک تھا پیلا
ٹیٹو نے ڈنڈے کے اوپر
باندھی ڈوری سے اک پچّر
ایسے جیسے ہاتھ ہوں پھیلے
کچھ کچھ صاف اور کچھ کچھ میلے
باندھی تھی جس جوڑ پہ ڈوری
پھاڑ کے بُورا دے کی بوری
جوڑ دیا شیشوں کو اسی جا
سنیے ذرا اب اس کا نتیجا
دونوں اپنی ٹین کی موٹر
لائے بھگاتے فَرفَر فَرفَر
سوچا ڈنڈا سگنل دے گا
رنگین لائٹ پل پل دے گا
نکلے گا جب لال اُجالا
ٹھیرے گا ہر چلنے والا
زرد چمک جب ہوگی پیاری
ہوگی چلنے کی تیاری
جس دم بتی سبز جلے گی
کار ہماری دوڑ چلے گی
تھے وہ دیکھ کے اندھی بتی
دَم میں تولہ دَم میں رتی
ٹیٹو نے منھ پر ہاتھ لگایا
پوں پوں پوں پوں ہارن بجایا
بِلّو ٹیٹو پر چِلائی!
ہارن بجانا منع ہے بھائی
شام کے سائے ہوگئے گہرے
رہ گئے وہ ٹھیرے کے ٹھیرے
پھر نہ وہ ہاتھ نہ وہ ڈنڈا تھا
کار کا انجن بھی ٹھنڈا تھا

spider web

محنت کرو

مکڑی نے کیا جالا تانا
کیسا اچھا تانا بانا
آخر اُس نے کیوں کر جانا
اُس سے ملے گا مجھ کو کھانا
جس نے مکڑی پیدا کی ہے
اُس نے اتنی عقل بھی دی ہے
روزی کا کیوں تجھ کو غم ہے
مکڑی سے بھی کیا تُو کم ہے
جب تک تیرے دَم میں دَم ہے
ہاتھ میں کاغذ اور قلم ہے
سیکھ لے بابا! علم، ہنر تُو
محنت کر تُو، محنت کر تُو

muslim kid pray

بول پیارے

کس کے ہیں سب چاند ستارے
کس کے دریا اور کنارے
بول پیارے بول پیارے
صحرا کس کے جنگل کس کے
بارش کس کی بادل کس کے
بول پیارے بول پیارے
جان ہے کس کی آن ہے کس کی
اونچا شملہ شان ہے کس کی
بول پیارے بول پیارے
برکت کس کی رحمت کس کی
ہم سب پر ہے شفقت کس کی
بول پیارے بول پیارے
کس کی پنسل کس کی تختی
کون ہے کرتا نرمی سختی
بول پیارے بول پیارے
کون شریف ہے مالک خالق
سب دنیا کا کون ہے رازق
بول پیارے بول پیارے

Allama Iqbal

بوجھ لیا نا؟

جس کے دل میں آیا قومی ہمدردی کا خیال
جس کے سخن نے دکھلایا تھا دنیا کو یہ کمال
شعروں میں تھا جس کے کلام اللہ کا جلال و جمال
بوجھ غلامی کا تھا ایسا قوم ہوئی تھی نڈھال
ہندوستان میں ہم مسلم تھے بے حد خستہ حال
ہندو نے چالاکی کا پھیلایا تھا اک جال
شاطر تھا انگریز بھی جس نے چلی تھی ٹیڑھی چال
دونوں کی مرضی تھی کردیں مسلم کا پامال
ایسے میں وہ شاعر اُٹھا اس نے کیا کمال
قوم کے دل میں جس نے ڈالا آزادی کا خیال
جس نے کہا گر چاہتے ہیں مسلم ہونا خو ش حال
مایوسی اور نومیدی کو دل سے دیں وہ نکال
سامنے اپنے آبا کی رکھیں بے مثل مثال
بانگِ درا سے جس کی ہند میں آیا اک بھونچال
جس نے کہا قائد سے آپ یہ پرچم لیجیے سنبھال
اور غلامی کی دلدل سے قوم کو لیجیے نکال
قائد اعظم نے بڑھ کر پھر وہ پرچم لیا سنبھال
بوجھو بچو کون تھا جس کا سنا یہ تم نے حال
بوجھ لیا نا؟ وہ تھے اپنے علامہ اقبال

آئوبچو ! کریں حساب

کتنی ہم نے عمر گزاری
اللہ سے ہے کتنی یاری
نافرمانی کتنی کی اور
کتنی کی ہے تابع داری
دل کی اپنے کھول کتاب
آؤ بچو ! کریں حساب

پہلے ہم تحقیق کریں گے
ہر شے کی تصدیق کریں گے
جمع کریں گے پیار، محبت
نفرت کو تفریق کریں گے
ختم کریں جھگڑے کا باب
آؤ بچو ! کریں حساب

نیکی کو ہم ضرب کریں گے
لاکھ ،کروڑ کو ارب کریں گے
جتنے ہم نے گناہ کیے ہیں
صفر سے ان کو ضرب کریں گے
تب نکلے گا صحیح جواب
آؤ بچو ! کریں حساب

رب کی ہم تعظیم کریں گے
آپس میں تفہیم کریں گے
بے کس اور مظلوموں کے ہم
سارے دکھ تقسیم کریں گے
بدلے میں پائیں گے ثواب
آؤ بچو ! کریں حساب

اوٹ پٹانگ

چوہے نے ایک بلی پالی
بلی نے اک شیر
شیر بچارا پیٹ کا مارا
کھائے سوکھے بیر
بیر کی گٹھلی پر سے اک دن
پھسل گیا اک اُونٹ
اونٹ کو گرتا دیکھ کے مرغی
دوڑی چاروں کھونٹ
مرغی کا واویلا سن کے
ہنسنے لگی اِک گائے
گائے کو ہنستا دیکھ کے بندر
بولا ہائے رے ہائے