’’میں آؤں؟ … میں آؤں؟ … میں آؤں؟‘‘
مانو بلی نے منو میاں کو مصروف دیکھا تو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اخلاقاً پوچھ لیا:
’’میں آؤں؟‘‘
منومیاں نے کچھ لکھتے لکھتے اپنی کاپی سے سر اُٹھایا اورمانو کی طرف دیکھ کر بولے:
’’ضرور … ضرور … بڑی خوشی سے!‘‘
مگربی مانو کوشاید اب بھی کچھ جھجک سی محسوس ہو رہی تھی۔ سو،اُنھوں نے ایک بار پھر اپنی سُریلی آواز میں سوال کیا:
’’میں آؤں؟‘‘
منو میاںنے بھی ایک بار پھر بڑے مہذب انداز میں جواب دیا:’’جی ہاں!میں نے عرض کیانا کہ آپ تشریف لا سکتی ہیں۔‘‘
لیکن بی مانو کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ منو میاں اپنی پڑھائی میں خلل پڑنے سے خفا نہیں ہوں گے، احتیاطاً انھوں نے پھر پوچھا:
’’میں آؤں؟‘‘
اب منو میاں بھی کچھ جھنجھلا گئے۔ جھنجھلا کر کہنے لگے:
’’ارے بھئی!آپ کب تک کھڑکی میں اٹکی ہوئی ’میں آؤں… میں آؤں‘ کی رَٹ لگاتی رہیں گی؟ اب آ بھی چکیے۔‘‘
مگر اتنی کھلی اجازت مل جانے کے باوجود مانو نہ مانی، پھر پوچھ بیٹھی: ’’میں آؤں؟‘‘
اب تو منومیاں کا پارہ چڑھ گیا۔غصے سے بولے:
’’ارے بی مانو!آپ کو ہمیں چڑانے میں کیا مزہ آرہا ہے؟ کہہ تو دیا کہ آجائیے۔‘‘
منو کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر مانونے معذرت بھرے لہجے میں کہا:’’میں بار بار صرف اِس لیے پوچھ رہی تھی کہ اگر آپ کسی ضروری کام میں مصروف نہ ہوں تو …میں آؤں؟‘‘
منو میاںاب تک اچھے خاصے چڑ چکے تھے۔ناک چڑھا کر چیخے:’’محترمہ!آپ دیکھ چکی کہ میں اپنا ’ہوم ورک‘ کرنے میں مصروف تھا،مگر جب آپ سر پر سوار ہو ہی گئی ہیں تو میں بھلا آپ کو کیسے بھگا سکتا ہوں؟آئیے!‘‘
مانو کو شاید یہ بات بُری لگ گئی۔ جھٹ بولیں:
’’نہیں، نہیں!اگر آپ اِس وقت بہت مصروف ہیں تو … میں جاؤں؟‘‘
منو میاںنے قلم ہاتھ سے رکھتے ہوئے کہا:
’’اِس سے پہلے کہ اب آپ… ’میں جاؤں، میں جاؤں‘… کی رٹ لگانا شروع کردیں۔ یہ فرمائیے کہ آپ نے کیسے زحمت کی؟ کیا آپ کسی ضروری کام سے تشریف لائی تھیں؟‘‘
مانو بلی نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا:
’’کوئی خاص کام تو نہیں تھا۔ بس باہر کی دیوار پر بیٹھی بور ہو رہی تھی۔وہیں سے کھڑکی پر نظر پڑی تو آپ کو بیٹھے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ کچھ دیر آپ ہی سے میاؤں میاؤں کرلوں۔‘‘
’’اچھا… تو کیجیے۔‘‘
’’اوہو… آپ نے تو بڑی ٹھنڈی سانس بھر کر …’اچھا تو کیجیے‘… کہاہے۔ کیا آج آپ کو بہت مشکل ’ہوم ورک‘ مل گیا ہے؟‘‘
’’ہاں بی مانو!ہے تو مشکل، مگر مزے دار بھی بہت ہے۔‘‘
’’ایسا کون سا کام ہے جو مشکل بھی ہے اور مزے دار بھی…؟‘‘
’’ارے بی مانو!یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔‘‘
’’کیوں نہیں آئے گی؟‘‘مانو نے برا مان کر کہا:’’مانا کہ مانو اَن پڑھ ہے، مگر ناسمجھ نہیں ہے۔سب سمجھتی ہے۔ آپ سمجھائیے نا۔‘‘
منو میاں نے سوچا کہ بی مانو تو کمبل ہی ہو گئی ہیں۔ منھ بناکراُنہی کے لہجے میں جواب دیا:
’’مانا کہ مانو بہت سمجھ دار ہے، مگر یہ باتیں ایسی باتیں ہیں کہ بڑے بڑے سمجھ دار لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
مانو بلی نے منو کی اِس بات کو بھی دل پر لے لیا۔کہنے لگی:
’’جناب!میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں۔آپ جب بہت چھوٹے سے تھے تو ایک بار ایسا ہوا کہ گھر سے باہر نکلے اور کھو گئے۔ مسجدوں میںاعلان کرانا پڑا۔ گھر والوں اور محلے والوں کو بازاروں، گلیوں اور پارکوں میںآپ کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگنا دوڑنا پڑا۔ آخر آپ حَلُّو حلوائی کی دُکان کے پاس روتے ہوئے مل گئے۔لیکن مجھے آپ شہر کے کسی کونے میں چھوڑ آئیے، واپس سیدھی گھر پہنچوں گی۔‘‘
’’یہی تو مشکل ہے… ہم آپ کو کہیں چھوڑ کر بھی نہیں آسکتے۔آپ کی والدہ محترمہ نے تو آپ کو پیدا ہوتے ہی محلے کے سات گھر جھنکوا دیے ہوں گے۔ باقی گھر آپ نے خود جھانک لیے ہیں۔ آپ سے پیچھا چھڑانا تو ناممکن ہی نظرآتا ہے۔‘‘
مانو خوش ہو کر کہنے لگی: ’’اب آپ نے ہار مان ہی لی ہے تو مجھے بھی بتا دیجیے کہ آپ کس مشکل میں پڑ گئے ہیں؟‘‘
’’محترمہ!مجھے کچھ محاوروں اور ضرب الامثال کا مطلب لکھنا ہے،اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب آپ ہی سے متعلق ہیں۔‘‘
اب تو مانو اور بھی خوش ہو گئی۔ خوشی سے بولی: ’’اچھا؟ میرے متعلق ہیں؟سنائیے!‘‘
’’لیجیے سنیے۔پہلی ضرب المثل ہے… نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔‘‘
’’آئے ہائے توبہ توبہ استغفار۔منومیاں!یہ ضرب المثل تو کسی نے ہم بلّیوں کو بلاوجہ بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔جب کوئی شخص برے برے کام کرنے کے بعد یکایک نیکی کے کسی کام کی طرف راغب ہو جائے تو ایسے موقع پریہی بولتے ہیں۔اوّل تو اللہ کسی کو کسی وقت بھی ہدایت دے سکتاہے۔ کوئی شخص بھی زندگی کے کسی بھی دور میں برائی کا راستہ چھوڑ کر سیدھی راہ پر لگ سکتاہے۔اُس وقت اُس کا مذاق اڑانے کی بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اُس کی تعریف کرنی چاہیے کہ اُس نے برے کام چھوڑ کر نیکی کے کام کرنے شروع کر دیے ہیں، مگر اُس پر طنز کیا جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ ہم بلّیاں جو چوہے کھاتی ہیں تو یہ کوئی بُرا کام تو نہیں۔بلّیاں توآپ کو نقصان سے بچاتی ہیں۔ چوہے آپ کی کتابیں اور کاغذ کتر دیتے ہیں۔روٹی نوچ لیتے ہیں۔ کپڑے کاٹ ڈالتے ہیں اور بیماریاں الگ پھیلاتے ہیں،لہٰذا کسی بلّی نے اگر نو سو چوہے کھا لیے ہیں تو بڑی نیکی کا کام ہی کیا ہے۔ اب اگر وہ حج کو بھی چلی ہے تو اُسے چلے جانے دیجیے۔کیوں اُس کا رستہ روکتے ہیں؟‘‘
’’چلیے آئندہ نہیں روکیں گے،مگر رستہ روکنے پر یاد آیا کہ آپ بلّیاں اکثر انسانوں کا رستہ کاٹ جاتی ہیں۔ اچھا بھلا انسان اپنے کسی کام سے جارہا ہوتاہے کہ بے چارا یہ کہہ کر واپس آجاتا ہے کہ کام کیا خاک ہوگا؟ ’بلی رستہ کاٹ گئی‘… آخرآپ کو ہم انسانوں کے کسی کام میں کھنڈت ڈال دینے میں کیا مزہ آتاہے؟‘‘
’’کام میں نہیں، آپ کے ’وہم‘ میں کھنڈت ڈالنے میں مزہ آتا ہے۔آپ انسان تو اشرف المخلوقات ہیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ فائدہ، نقصان، کامیابی اور ناکامی سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ بلی بے چاری کے اختیار میںتوخود اپنی کامیابی اور ناکامی بھی نہیں ہوتی۔ وہ بھلا انسانوں کا کوئی کام کیسے خراب کر سکتی ہے۔ یہ تو اتفاق ہوتاہے کہ کسی راستے پر کوئی انسان بھی جارہا ہوتا ہے اور کوئی بلی بھی جا رہی ہو۔دونوں کی کسی جگہ کراسنگ بھی ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی انسان بھی ہمارا رَستہ کاٹ جاتے ہیں مگر ہم تو اِس وہم میں نہیں پڑتے کہ لوجی!انسان ہمارا رستہ کاٹ گیاہے، اب چوہا کیا خاک ملے گا؟‘‘
’’بھئی مانو!ہم مان گئے آپ کو۔ آپ تو بالکل ہماری مس کی طرح سمجھاتی ہیں۔ اب ہم آج سے آپ کو ’مس مانو‘ کہا کریں گے۔ آپ نے فائدے نقصان کی بات کی ہے تو ہمیں بھی ایک نقصان یاد آگیا۔ نقصان ہوتاہے انسان کا اور فائدہ ہوتا ہے آپ کا۔ کہتے ہیں کہ ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ یہ چھینکا کیا ہوتاہے؟ اور کیایہ آپ کے بھاگنے سے ٹوٹ جاتاہے؟‘‘
یہ سوال سن کر مانو نے ایک چھینک ماری،پھر ہنستے ہوئے بولی:
’’نہیں بھئی۔ایسی بات نہیں۔ بات یہ ہے کہ آپ لوگ اپنا تو بڑا خیال رکھتے ہیں، مگر ہمارا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔اپنی چیزیں تو ٹھنڈی الماری (فریج)یا نعمت خانے میں چھپا کر رکھتے ہیں اور جب بھوک لگتی ہے تو فوراً چٹ کر جاتے ہیں۔ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم بولائے بولائے پھرتے ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب فریج وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔سب چیزیں باورچی خانے میں رکھی جاتی تھیں۔ ہائے کیا سنہرے زمانے تھے۔ ہمارے لیے بڑی آسانیاں تھیں۔جب بھوک لگی تو آپ کے باورچی خانے میں رکھا ہوا دودھ پی آئے، گوشت کھالیا یا مچھلی ہڑپ کرلی۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ انسان نے ہم سے تنگ آکر ’چھینکا‘ ایجاد کیا۔چھت سے رسّیاں لٹکا کر اُن سے کوئی تھال، کوئی رسّی کا جال، کوئی ٹوکری یا کوئی طشتری باندھ دی جاتی۔اُسی پر دودھ، گوشت یا مچھلی کا سالن رکھ کر لٹکا دیا جاتا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ مچھلی ہماری مرغوب غذا ہے۔ اُس کی خوشبو ہی ہمیں پاگل کر دیتی ہے۔’چھینکے‘ پر چڑھنے کے لیے ہمیں کوئی راستہ ہی نہ ملتا۔ اتنی اونچی اور لمبی ہائی جمپ لگانا بھی آسان کام نہ ہوتا۔ نشانہ خطا ہو جاتا تو غلط جگہ جا گرتے۔اِس وجہ سے ہمارے لیے اُس پر سے کوئی چیز اُتارنا ممکن نہ ہوتا۔ہاں کبھی کبھی قسمت کام کر جاتی اور رسی کمزور ہوجانے سے یا کسی اور وجہ سے خود چھینکا ہی ٹوٹ جاتا تو بس پھر ہمارے عیش ہو جاتے۔ ہندی زبان میں قسمت کو ’بھاگ‘ کہتے ہیں۔’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کا مطلب ہے کہ بلی کی قسمت سے چھینکا ٹوٹ گیا،لہٰذا جب کسی اتفاقی حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کو کوئی ایسی نعمت مل جائے، جو عام حالات میںاسے ملنا آسان نہ ہو توکہتے ہیں کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘۔
’’مس مانو!ابھی آپ نے بھوک سے اپنے بولائے بولائے پھرنے کی بات کی ہے،مگر کوئی انسان بولایا بولایا پھرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ’’جلے پاؤں کی بلی‘‘ کی طرح پھررہاہے۔یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ ہمارے تلوے بڑے نازک، نرم اور گدیلے ہوتے ہیں۔ ہم چاہے کتنی ہی اونچائی سے چھلانگ لگائیں، اِن گدیلے تلووں کی وجہ سے ہمیں چوٹ نہیں لگتی۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی آدمی کوئی کام ہوشیاری سے کرتا ہے اور کام کرتے ہوئے اپنے آرام اور اپنی حفاظت کا پورا پورا خیال رکھتا ہے تو اُس موقع پر بھی ایک ضرب المثل استعمال کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ’’بلی گرتی ہے تو پنجوں کے بل‘‘۔ مطلب یہ کہ سمجھ دار لوگ ہرکام سمجھ داری کے ساتھ کرتے ہیں۔آپ نے جو ضرب المثل پوچھی ہے اُس کے پیچھے یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اگر ہمارے تلوے جل جائیں تو ہمیں چلنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے اور مارے تکلیف کے ہم بلیاں ’’میاؤں میاؤں‘‘ کے بجائے ’’پیاؤں پیاؤں‘‘ کرتے ہوئے بے چینی سے پھرنے لگتی ہیں اورہمیں کسی طرح چین نہیں پڑتا۔ اگر کوئی انسان بھی کسی پریشانی میں پڑ کر اِسی طرح بے چینی سے چیختا چلاتا پھرنے لگے تو ایسے موقع پر کہتے ہیں کہ وہ ’’جلے پاؤں کی بلی‘‘ کی طرح پھر رہا ہے‘‘۔
’’بھئی آپ سے میاؤں میاؤں کر کے تو واقعی ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے،مگر یہ بتائیے کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ’’بلی سے اتنا ڈر نہیں لگتا، جتنا اُس کی میاؤں سے ڈر لگتاہے‘‘۔کیا آپ کی میاؤں اتنی ڈراؤنی ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاہاہاہا… میاؤں، میاؤں…منومیاں!اگر ہماری میاؤں ڈراؤنی ہوتی تو آپ کب کے ڈر کر بھاگ چکے ہوتے۔ یہ بات تو چوہوں نے مشہور کر رکھی ہے۔ وہ بے چارے بھی کیا کریں؟ ہم سے ڈرتے جو ہیں۔ہوا یوں کہ ایک بار چوہوں نے ہم سے تنگ آکراپنی کل جماعتی کانفرنس کی۔ ایجنڈا یہ تھاکہ آج بلی کا بندوبست کرکے رہیں گے۔ ایک چوہے نے کہا:’میں لپک کر بلی کے پنجوں کو چمٹ جاؤں گا۔‘
دوسرے چوہے نے کہا:’میں اُس کے ناخن کتر دوں گا۔‘
تیسرے نے کہا:’میں اُس کی ناک اپنے تیز دانتوںسے کاٹ لوں گا۔‘
چوتھا بولا:’میں اُس کے کان پکڑ کرکھینچ بھاگوں گا۔‘
پانچویں چوہے نے بڑھک لگائی کہ :’میں اُس کی دُم پکڑ کر لٹک جاؤں گا۔‘
اجلاس کی صدارت ایک بڈھا چوہا کر رہا تھا۔سب کے سب خیالی پلاؤ پکارہے تھے اور وہ چپ چاپ بیٹھا سن رہا تھا۔
آخر ایک چوہے نے کہا: ’حضرت!آپ بھی تو کچھ فرمائیے۔‘
صدر صاحب نے کہا:’ارے بچو!تم سب دیوانے ہو گئے ہو۔جب وہ ایک مرتبہ غرا کر ’میاؤں‘ کہے گی تو تم سب کا دَم نکل جائے گا۔بلی کی باقی چیزوں کو تو پکڑا جاسکتا ہے، مگر اُس کی ’میاؤں‘ کو کون پکڑے گا؟‘
اتنے میں ایک بلی وہاں آگئی اور اس نے غرا کر کہا: ’میاؤں!‘
بس یہ سنتے ہی سب کے ہوش اُڑ گئے اور سب کے سب بے ہوش ہو گئے۔منو میاں!یہ محاورہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب بتانا ہو کہ زبردست اور طاقتور کا رعب ہی کافی ہوتا ہے۔ ہوش اُڑانے کے لیے صرف اُس کی دھمکی ہی بہت ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا تو کیا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا فیصلہ چوہوں کی اُسی کل جماعتی کانفرنس میں ہوا تھا؟‘‘
’’نہیں، اِس مقصد کے لیے دوسری کانفرنس طلب کی گئی تھی۔اِس کانفرنس میں سب چوہے سر جوڑ کر بیٹھے کہ بلی کے چلنے کی آہٹ تو ہوتی نہیں، وہ چپکے سے آجاتی ہے اور ہمیں کھا جاتی ہے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ ہمیں پہلے سے پتا چل جائے کہ بلی آرہی ہے۔آخر اِس کانفرنس نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ بلی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دی جائے جو اُس کے چلنے پر بجتی چلی جائے۔ یوں ہمیں پہلے سے پتا چل جائے گا کہ بلی اِدھر آرہی ہے۔ اِس موقع پر بھی اُسی بڈھے چوہے نے پوچھا:’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘
یہ سوال سنتے ہی سارے کے سارے سُورما چوہے وہاں سے کھسک لیے۔بس یہ محاورہ ایسے ہی موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی جرأت مندانہ کام کے لیے بڑے بہادری کے منصوبے بنائے جائیں، مگر بہادری کا یہ کام کرنے کی ہمت کسی میں نہ پائی جاتی ہو۔‘‘
’’اچھا تو کیا ’چوہے بھاگ بلی آئی‘ کا محاورہ بھی اِن ہی واقعات سے نکلا ہے؟‘‘
’’یہی سمجھ لیجیے۔یہ محاورہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کمزور کو کسی طاقتوردشمن سے ڈرا کر بھگانا ہو۔‘‘
’’مس مانو!آپ کی ’میاؤں‘ پر ایک محاورہ اوربھی تو ہے، ’’ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’یہاں ’میاؤں‘ سے مراد ہے غرانا۔جب کوئی چھوٹا اپنے کسی بڑے کے برابر بننے کی کوشش کرنے لگے۔ شاگرد اُستاد کو سکھانے پڑھانے پر اُتر آئے، نوکر اپنے آقاکے منھ آنے لگے یا غلام اپنے مالک کو عقل سکھانے لگے تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے: ’’ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں‘‘۔یعنی ہم نے تمھیں سکھایا پڑھایا، قابل بنایا اب تم ہمیں ہی بے وقوف سمجھنے لگے؟‘‘
’’ہاں!یہ تو ادب آداب کے خلاف بات ہے۔اچھا یہ بتائیے کہ چوہوں سے تو آپ کی پرانی دشمنی ہے،مگر یہ ’’چوہے بلی کا کھیل‘‘ کیا چیزہے؟ کیا دشمنی کے باوجود آپ چوہوں سے دوستانہ کھیل کھیلتی ہیں؟‘‘
’’بھئی ہم چوہے کو پکڑنے کے لیے بھاگتے ہیں تو چوہابھی جان بچانے کے لیے بھاگتاہے۔جدھر جدھر چوہا بھاگتا ہے اُدھراُدھر ہم بھی اُس کا پیچھا کرنے کو بھاگتے ہیں۔کبھی ہم لوگ چھپ کر چوہے کا انتظار کرتے ہیں، کبھی چوہا کہیں چھپ کر ہمارے جانے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔اگر انسانوں میں بھی اسی طرح کی صورتِ حال پیدا ہوجائے کہ لوگ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے آگے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔ ایک دوسرے کی تاک میں بیٹھے ہوں۔ایک دوسرے کی گھات میں لگے ہوئے ہوں، مگر پکڑے نہ جارہے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ’’چوہے بلی کا کھیل‘‘ہو گیا۔ جب کہ ہمارے لیے یہ کھیل نہیں بڑا ایڈونچر ہوتاہے‘‘۔
’’اگر کھیل نہیں ہوتا تو مس مانو!تووہ کیا قصہ تھا جب ایک چوہے نے آپ سے کہاتھا :’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔یہ کیا کھیل کھیلا تھا آپ نے؟‘‘
’’منومیاں!یہ ہماری جنگی حکمت عملی تھی۔ہم نے ایک چوہے کو چمکار کر کہاآؤ ہم ’پکڑم پکڑائی‘ کھیلیں۔وہ ہمارے جھانسے میں آگیا۔پھر جیسے ہی موقع پا کر ہم نے اُس پر جھپٹّا مارا، وہ تیزی سے بھاگ کر اپنے بِل میں گھس گیا، مگر اُس کی دُم ہمارے ہاتھ میں رہ گئی۔ اب ہم نے دوسری چال چلی اور اُس سے کہا: ’چوہے میاں!ہم تو تمھارے ساتھ کھیل رہے تھے۔ تم خواہ مخواہ ڈر کر بھاگ گئے اور اپنی دُم بھی تُڑا بیٹھے۔باہر آؤ ہم تمھاری دُم جوڑ دیں۔ورنہ تم یوں لنڈورے (یعنی بغیر دُم کے) اچھے نہیں لگو گے‘۔لیکن چوہا ہماری چال سمجھ چکا تھا۔ کہنے لگا:’’بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘۔تو اگر کوئی شخص کسی کو پھانسنے کے لیے اُسے کسی فائدے کا جھانسا دے اور یہ چال اُس کی سمجھ میں آجائے تو یہ ضرب المثل ایسے ہی موقع پر استعمال کی جاتی ہے۔‘‘
’’مس مانو!ہم نے سنا ہے کہ ’’بلی کو خواب میں بھی چھیچھڑے نظرآتے ہیں‘‘۔چوہے کیوں نہیں نظرآتے؟‘‘
’’ارے بھئی منو میاں!خواب میں تو بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ہمیں چھیچھڑے بھی بہت پسند ہیں۔اتنے پسند ہیں کہ خواب میں بھی نظر آجاتے ہیں۔مگر اِس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جس کو جس چیز کی دُھن ہوتی ہے، اُس کو خواب میں بھی وہی چیز نظر آتی ہے‘‘۔
’’اچھا یہ بتائیے کہ لوگ ’بلی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی‘کروانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟‘‘
’’ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔بات یہ ہے کہ چھیچھڑے کسی اور کے کام کے تو ہوتے نہیں۔ صرف ہماری من بھاتی غذا ہیں۔ اگر کوئی کسی بلی سے کہے کہ ذرا میرے یہ چھیچھڑے سنبھال کر رکھ لو تو وہ خود بے وقوفی کرے گا۔ کیوں کہ بلی تو چھیچھڑے کھائے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ لیکن آپ انسانوں نے یہ محاورہ اُن بے ایمان اور بد دیانت انسانوں کے لیے ایجاد کیا ہے، جنھیں اگر کچھ مال و دولت امانت رکھنے کے لیے دیا جائے تو وہ اُس میں ضرور خیانت کریں گے اور کھا جائیں گے۔ بلّیاں مفت میں بدنام ہوگئیں۔‘‘
’’ارے ہاں خوب یاد آیا۔ ہم نے سنا ہے کہ ایک بار آپ اونٹ کے گلے میں بھی لٹک گئی تھیں‘‘۔
’’لٹک نہیں گئی تھی، لٹکا دی گئی تھی۔یہ آپ انسانوں کا قصہ ہے۔ایک کنجوس میاں کا اونٹ گم ہو گیا۔ انھوں نے خوب ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ جب ملنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو انھوں نے منت مان لی کہ اگر وہ اونٹ مل گیا تو اس کو اونے پونے … فرض کیجیے ایک، دو روپے میں…بیچ دوں گا۔اتفاق سے گم شدہ اونٹ مل گیا۔اب تو وہ بہت پچھتائے،مگر منت پوری کرنا بھی ضروری تھا۔انھوں نے ایک ترکیب سوچی۔ اونٹ کے گلے میں ایک بلی باندھ دی اور اعلان کردیا کہ جو اونٹ خریدے گا اُسے یہ بلی بھی خریدنی پڑے گی۔ اونٹ کی قیمت تو ایک دو روپے ہی رکھی مگر بلی کی قیمت … فرض کیجیے کہ… پچاس ہزار روپے رکھ دی۔ایسے موقع پر جب کسی قیمتی چیز کے ساتھ کوئی کم قیمت چیز بھی گلے پڑ جائے اور کم قیمت چیز زیادہ مہنگے داموں پڑے تو کہتے ہیں کہ یہ تو ’’اونٹ کے گلے میں بلی‘‘ ہوگئی۔‘‘
’’چلیے اونٹ کی گردن میں تو آپ لٹک گئی تھیں یا لٹکا دی گئی تھیں،مگر آپ کو شیر کی خالہ کس خوشی میں کہا جاتا ہے؟ہم تو حیران ہو کر سوچتے رہتے ہیں کہ:
گر بلی شیر کی خالہ ہے
پھر ہم نے اسے کیوں پالاہے؟
کیا شیر بہت نالائق ہے
خالہ کو مار نکالا ہے
یا جنگل کے راجا کے ہاں
کیا ملتی دودھ ملائی نہیں؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
’’اور میری تو یہ بات سمجھ میں آئی نہیںکہ آخر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں تو شیر کی خالہ ہوں… آپ کی بہن شمی کی طرح کوئی شیطان کی خالہ تو نہیں ہوں،جو ہروقت میری دُم پکڑ کر کھینچتی رہتی ہے۔‘‘
’’ارے ارے … آپ تو ناراض ہوگئیں۔میں شمی کو سمجھا دوں گا کہ وہ آپ کی دُم پکڑ کر نہ کھینچا کرے۔اب وہ آپ کی دُم نہیں کھینچے گی۔ اگر وہ ایسا کرے تو آپ بے شک دُم دبا کر بھاگ جائیے گا۔مگر یہ بتائیے کہ کیا شیر واقعی آپ کا بھانجا ہے؟‘‘
’’منومیاں!آپ نے حیاتیات یا بیالوجی تو پڑھی ہوگی۔ مختلف جانور مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے گائے، بیل، بھینس، نیل گائے وغیرہ ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔بکروں دنبوں وغیرہ کا اپنا الگ خاندان ہے۔ چھپکلی، گرگٹ، سانڈے، گوہ وغیرہ مل کر ایک خاندان بناتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا اور شیرمیاں کا خاندان ایک ہی ہے۔ہماری اور شیرنی کی پڑ نانی امّاں سگی بہنیں تھیں۔اِس طرح شیرنی ہماری بہن ہوئی اور شیر ہمارا بھانجا۔‘‘
’’آپ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ’’بلی نے شیر کو سب کچھ سکھا دیا، مگر درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا‘‘ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں کچھ کچھ ٹھیک ہی ہے۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ شیر میاں غصے کے بڑے تیز ہیں۔ جب کسی کو غصہ آتا ہے تو اُسے چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہتی۔ اسی لیے غصہ حرام ہے۔ہم نے تو اُن کے بھلے کے لیے ہی درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا کہ ہڑبونگے تو ہیں ہی، کسی درخت سے گِر، گِرا گئے تو ہڈی وڈّی تڑوا بیٹھیں گے۔ ساری عمر کے لیے اپاہج اور معذور ہو کر بیٹھ رہیں گے۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں درخت پر چڑھنا اِس لیے نہیں سکھایا کہ جب اُن کو غصہ آئے تو ہم خوددرخت پر چڑھ کر اپنی جان بچاسکیں۔ لوگوں کی زبان کون پکڑسکتا ہے؟ یہ محاورہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شاگرداپنے آپ کو اپنے استاد سے بڑھ کرثابت کرنے کی کوشش کرے، مگر اُسے اچانک معلوم ہو کہ ابھی تو وہ بہت سی باتوں میں اپنے استاد سے بہت پیچھے ہے۔‘‘
’’آپ خود تو اپنے آپ کو شیر کی خالہ کہتی ہیں، مگر ہماری ایک ضرب المثل یہ کہتی ہے کہ’’پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی‘‘تو کیا آپ بھی یہی کہتی ہیں کہ چلو میں بلی ہی سہی؟‘‘
’’ارے بھئی اِس ضرب المثل کے پیچھے تو ایک بڑے مزے کا قصہ ہے۔ ہوا یوں کہ کسی رات ایک صاحب کے گھر میں چور کودا۔’
کھڑ بڑ سڑ بڑ‘ کی آواز سن کر اُن کی آنکھ کھل گئی۔انھوں نے ڈانٹ کر پوچھا:’کون ہے؟‘
چور چالاک تھا۔ اُس نے ہماری آواز بنا کر کہا: ’میاؤں‘۔وہ صاحب سمجھے کہ بلی ہے، پھر سوگئے۔
جب پھر ’کھڑ بڑ سڑ بڑ‘ ہوئی تو وہ پھر جا گ اُٹھے اور پھر پوچھا:’کون ہے؟‘
چور نے پھر ہماری آواز نکالی،مگر اب انھوں نے سمجھ لیاکہ یہ بلی نہیں ہے، چور ہے۔
انھوںنے ’چور، چور‘ کا شور مچادیا۔ محلے والے بھی جاگ گئے، مگر چور اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھاگ گیا۔لوگوں نے بہت ڈھونڈا مگر کہیں نہ ملا۔ آخر محلے والوں نے کہا: ’چور نہیں ہوگا، بلی ہی ہوگی‘۔مگر جن صاحب کے گھر چور کودا تھا، انھوں نے تو چور کو خود دیکھا تھا۔ وہ کہنے لگے: ’نہیں، چور ہی تھا‘۔ لوگوں نے کہا: ’چور ہوتا تو پکڑا جاتا۔ بلی ہوگی، کہیں بھاگ گئی ہوگی‘۔جب سب لوگ یہی کہنے لگے تو گھر والے صاحب بولے: ’تھاتو چورہی لیکن…’’پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی‘‘۔
اصل میں ’’پنچ‘‘ کہتے ہیں پانچ آدمیوں کو۔ اسی سے ’’پنچایت‘‘ بھی بنی ہے۔یعنی کم سے کم پانچ آدمیوںکی وہ کمیٹی جو لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ اِس کمیٹی کے صدر کو ’سر پنچ‘ کہا جاتا ہے۔جب کوئی شخص لوگوں کے سامنے اپنی بات ثابت نہ کرسکے، مگر اُسے یقین ہو کہ اُس کی بات صحیح ہے، تو ایسے موقع پر یہ ضرب المثل استعمال کرتے ہیں۔‘‘
’’واہ مس مانو!آپ نے تو ہماری معلومات میں سچ مچ بہت اضافہ کیا ہے۔اب یہ بتائیے کہ کیا ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ بھی آپ ہی کے متعلق ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی!ہمیں فارسی میں ’’گُربہ‘‘ کہا جاتا ہے۔اگر کوئی انسان ہماری طرح کا سیدھا سادا، شریف اور غریب ہو تو اُس کو بھی ’’گربۂ مسکین‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ ’’کشتن‘‘ بھی فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’مار ڈالنا‘‘۔ اب رہا ’’روزِ اوّل‘‘ تو اس کا مطلب تو آپ کو آتا ہی ہوگا، ’’پہلا دن‘‘۔
یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔
دو دوست تھے۔ دونوں کی شادی ہوگئی۔ ایک کی بیوی بڑی فرماں بردار اور خدمت گزار تھی۔ اپنے شوہر کا ہر حکم فوراً بجا لاتی تھی۔ دوسرے کی بیوی بڑی منھ پھٹ،لڑاکا اور نافرمان تھی۔ہر وقت لڑتی جھگڑتی رہتی تھی۔ ایک روز دوسرے دوست نے پہلے دوست سے پوچھا:’دوست کیا بات ہے کہ تمھاری بیوی اتنی فرماں بردار ہے؟ میری بیوی تو بڑی نک چڑھی ہے۔‘
پہلے دوست نے جواب دیا:’دراصل میں نے شادی کے بعد پہلے ہی دن گھر میں بڑا غصہ کیا۔چیزیں اُٹھا کر پھینکیں۔ برتن توڑ پھوڑ ڈالے۔ ایک بلی سامنے آئی تو میں نے تلوار لے کر اُس کی گردن اُڑا دی۔یہ سب کچھ دیکھ کر میری بیوی سہم گئی اور مجھ سے ڈرنے لگی۔ بس وہ دن اور آج کادن، میں جو کچھ کہتا ہوں وہ پورا کرتی ہے۔‘
یہ قصہ سن کر دوسرے دوست کو بھی حوصلہ ہوا۔ اُس نے کہیں سے ایک بلی پکڑی اور گھر جاکر بہت اودھم مچایا۔ پھر تلوار اُٹھا کر لایا اور اُس بلی کی گردن اُڑادی۔ اُس کی بیوی پہلے تو یہ سارامنظر دیکھتی رہی۔ جب شوہر کا ڈراما ختم ہوا تو بیوی نے بیلن اُٹھایااور شوہر کی طرف لپکی۔
کہنے لگی:’آج تک تو تم بڑی شرافت سے رہتے تھے، آج یہ کیا اُٹھا پٹخ شروع کردی؟ اور اس غریب بلی نے کیا قصور کیا تھا جو اُس کی گردن اُڑا دی۔‘
یہ کہہ کر بیوی نے جو اُس کی دھنائی کی ہے تو وہ گھر سے بھاگا۔ بھاگ کر سیدھا اپنے اُسی دوست کے پاس گیا اوربتایا کہ میری بیوی نے تو میرا یہ حشر کر دیا۔
یہ قصہ سن کر اُس کا دوست ہنسا اور بولا: ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘۔ یعنی بلی کو پہلے ہی دن مارنا چاہیے تھا۔ اب مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔تو یوں ہماری دو بلّیاں جان سے گئیں اور آپ کے ہاتھ ایک محاورہ آگیا۔‘‘
’’ارے ارے مس مانو! آپ روئیں نہیں۔ یہ توصرف قصے کہانیاں ہیں۔ کوئی سچ مچ ایسا تھوڑا ہی ہوا ہوگا، اچھا وہ ایک لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگاکہ بلی نہلانے سے نہیں نچوڑنے سے مری ہے۔‘‘
’’بھئی باتیں تو بہت ساری ہیں، مگر ابھی ابھی میری نظر پڑی ہے، بالکنی پر سے ایک چوہاکود کر برابر والے کمرے میں گیا ہے۔ شاید وہ کم بخت چھپ چھپا کر ہماری باتیں سن رہا تھا۔ابھی اسے سبق سکھاتی ہوں۔‘‘
’’ارے بھئی سنیے… دومنٹ تو ٹھیریے… ارے چھوڑیے مس مانو!جانے دیجیے…‘‘
مگر مس مانو کہاں ماننے والی تھیں؟ایک چھلانگ اوپر کو لگا کر روشن دان تک پہنچیں اور دوسری چھلانگ نیچے کو لگا کر یہ جا وہ جا۔
٭…٭