اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔احمد، فاطمہ اور زینب چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی نانی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ احمد کو اپنی نانی اماں بہت اچھی لگتی تھیں۔وہ ہر وقت مسکراتی رہتیں، بچوں سے پیار کرتیں اور انھیں بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں۔
اُس روز ماموں جان دفتر سے آئے تو بچوں کے لیے بہت ساری مونگ پھلیاں اور گزک لے کر آئے۔رات کے کھانے کے بعد نانی اماں عشا کی نماز پڑھ کر اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔تینوں بچے مونگ پھلیاں اور گزک لے کر اُن کے پاس آگئے۔احمد نے کہا:
’’نانی اماں!کہانی سنائیں!‘‘
نانی اماں نے تینوں بچوں کو اپنے کمبل میں لے لیا۔پہلے تو اُنھوں نے زینب سے کہا:
’’زینب بیٹا!ایک ٹوکری لے آؤ اورتم تینوں مونگ پھلی کے چھلکے اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے ٹوکری میں ڈالتے جاؤ۔‘‘
زینب جلدی سے ٹوکری لے آئی۔ نانی اماں نے اُسے شاباش دی اور کہانی شروع کی۔
’’آج میں تم کو ایک چالاک سردار کی کہانی سناؤں گی۔ اُس کا نام ہُرمُزان تھا۔ہُرمُزان ایرانیوں کے ایک فوجی لشکر کا سردار تھا۔اُس زمانے میں ایران کے لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو اپنا خدا سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی ہُرمُزان سے کئی جنگیں ہوئیں۔ ہر جنگ میں وہ ہار جاتا۔ ہار کر میدان سے بھاگ جاتا۔ایک جنگ میں ہار کر اُس نے مسلمانوں سے صلح بھی کر لی۔ صلح کرکے اُس نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ کر لیا۔‘‘
’’جِزیہ کیا ہوتا ہے نانی اماں؟‘‘
فاطمہ نے نانی اماں سے پوچھا۔ نانی اماں نے فاطمہ کے منھ پر سے گزک کا ٹکڑا صاف کرتے ہوئے اُسے بتایا:
’’بیٹا!اسلامی حکومت، غیر مسلموں سے اُن کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے بدلے جو ٹیکس لیتی ہے، اُسے جِزیہ کہتے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر نانی اماں نے کہانی پھر وہیں سے شروع کی، جہاںسے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
’’ہاں … تو ہُرمُزان نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ تو کر لیا، مگر وعدہ پورا نہیں کیا۔ دھوکا دیا۔اُس نے دو مرتبہ ایسا کیا۔ تیسری بار وہ ایران کے ایک شہر تستر میں جا کر ایک قلعے میں بند ہوگیا۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک پیارے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تستر پر حملہ کیا اور شہر فتح کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔ہُرمُزان نے ایک بار پھر ہتھیار ڈال دیے،مگر اِس بار اُس نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنی یہ شرط منوائی کہ اُسے ہتھیار ڈالنے کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اُس وقت مسلمانوں کے سربراہ یعنی امیرالمومنین تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ نے اُس سے وعدہ کر لیا اور یہ وعدہ پورا کیا…‘‘
’’نانی اماں!مسلمانوں نے ایسے دھوکے باز آدمی سے وعدہ کیوں پورا کیا؟ مسلمانوں کو بھی بدلے میں اُسے دھوکا دینا چاہیے تھا۔‘‘ احمد نے نانی اماں کی بات کاٹ کر بڑے غصے سے کہا۔ نانی اماں نے اُسے پیار کیا اور کہا:
’’توبہ توبہ … نہیں بیٹا!ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔مسلمان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے، اُس کا کوئی دین ایمان ہی نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔‘‘
زینب نے کہا: ’’نانی اماں!بھائی کی بات چھوڑیں۔ آپ آگے کہانی سنائیں۔‘‘
نانی اماں نے کہا: ’’ہُرمُزان جب مدینہ پہنچا تو اُس نے اپنے سر پر تاج رکھا ہوا تھا۔سونے کے دھاگوں سے سلے ہوئے ریشمی کپڑے ’’دِیبا‘‘ کی قبا پہنے ہوئے تھا۔بہت سارے ہیرے جواہرات اورزیورات بھی گلے میں ڈال رکھے تھے۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اُس وقت مسجد نبوی کے فرش پر اکیلے لیٹے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر کے عمامے کا تکیہ بنایا ہوا تھا۔
ہُرمُزان کو امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہُرمُزان ہے۔یہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
امیر المومنین نے فرمایا:’’جب تک یہ اپنے اس لباس میں رہے گا، میں اُس سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
ہُرمُزان جب اپنے کپڑے تبدیل کرکے عام لباس میں آیا تو امیرالمومنین نے اُس سے پوچھا:’’تو بار بار بدعہدی (یعنی وعدہ خلافی) کیوں کرتا رہا؟ تیرے پاس کیا جواب ہے؟‘‘
ہُرمُزان نے کہا: ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ میرا جواب سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: ’’ڈرو مت۔ تمھارا جواب ضرور سناجائے گا۔‘‘
پھر ہُرمُزان نے پانی مانگا۔ پانی آیا تو اُس نے پیالہ ہاتھ میں لے کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا اور کہنے لگا:
’’مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت ہی میں قتل نہ کردیں۔‘‘
امیر المومنین نے فرمایا: ’’تم خوف نہ کھاؤ۔ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر اُس نے پیالہ زمین پر پٹخ کر توڑ دیا اور کہا:
’’اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اب تو یہ پانی زمین میں مل چکا ہے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ہُرمُزان کے چالاکی دکھانے اور دھوکا دینے پر بہت غصہ آیا،لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’ہُرمُزان!تونے مجھے دھوکا دیاہے، لیکن میں تجھے دھوکا نہیں دوں گا۔اسلام نے ہمیں اُس کی تعلیم نہیں دی۔ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘‘
یہ بات سن کر چالاک سردار حیران رہ گیا۔
وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اِس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوہزار درہم سالانہ اُس کی تنخواہ مقرر کر دی اور وہ مدینہ منورہ میں ہی رہنے لگا۔‘‘
کہانی ختم کرکے نانی اماں نے بچوں سے کہا:
’’اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی، جب کسی سے کوئی وعدہ کریں تو اُسے ہر حال میں پورا کریں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ یہی مسلمان کی شان ہے۔‘‘
٭…٭