کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ایک دریا ہوتا۔ اُونچے اُونچے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت جھیلوں سے نکلتا۔ بل کھا تے پہاڑی راستوں پر مزے سے بہتا۔ بڑی بڑی چٹانیں میرے زور کے سامنے ٹہر نہ پاتیں۔ میرے کنارے لگے درخت مجھ میں اپنا عکس دیکھا کرتے۔
میں رنگ برنگ کی مچھلیوں کا گھر ہوتا۔ گرمی کے موسم میں جب پہاڑوں پر برف پگھلتی تو میرے اندر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی آجاتا۔گرمی سے اکتائے ہوئے لوگ دور دور سے میری سیر کو آجاتے۔ پہاڑوں سے بہتا بہتا جب میں میدانوں تک آتا تو میری رفتار آہستہ ہوجاتی۔ پھر میں ہری بھری فصلوں کو سیراب کرتا۔ باغوں کے سب درخت اور کھیتوں کے سب پودے میرے دوست بن جاتے۔ بچے مجھ میں ڈبکیاں لگایا کرتے۔میں سب کو فائدہ اور خوشی دیتا۔سمندرسے ملنے کے لیے مجھے طویل راستہ طے کرنا پڑتا لیکن اس خوب صورت سفر میں جب لوگ مجھ میں کچرا پھینکتے اور فیکٹریاں اپنا فضلہ مجھ میں بہاتی ہیں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے مگر میں کچھ کر نہیں پاتا۔
جب ہم اپنے کسی عزیز کو نہ چاہتے ہوئے دکھ دیں تو ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا ناں! اس لیے مجھے یہ خیال آیا کہ ہمیں کبھی کسی دریا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے دوسرے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔