اُن عظیم لوگوں کا تذکرہ…جو بچپن میں یتیم ہوگئے تھے… لیکن انھوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی بدولت دنیا پر راج کیا
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم (امام بخاریؒ)
امام بخاری ۱۹ جولائی ۸۱۰ء کو اُز بکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ ابھی کم سِن ہی تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔امام بخاری ؒ کو بچپن ہی سے حدیثیں یاد کرنے کا بہت شوق تھا۔۱۰ سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام وکیع کی روایت کردہ تمام احادیث حفظ کر لیںاور ۱۸ سال کی عمر میں ایک تصنیف شروع کی جس میں صحابہ و تابعین کے فیصلے اور مختلف اقوال موجود تھے۔
امام بخاریؒ کا حافظہ انتہائی قوی تھا اور آپ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔محمد بن حاتم ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’امام کو احادیث کا اتنا شوق تھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھ کر چراغ روشن کر کے مطالعے میں مشغول ہوجاتے۔صحیح بخاری احادیث کی سب سے مستند کتاب ہے ،اس کی تالیف کا کام امام بخاری نے ہی انجام دیا۔آپ ایک حدیث کو حاصل کر نے کے لیے میلوں تک پیدل سفر کرتے اور انتہائی کڑی شرائط کے ساتھ راوی سے حدیث لیتے۔جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے اور پھر دو رکعت نفل ادا کرکے حدیث تحریر فرماتے۔یوں آپ نے ۱۶برس میں صحیح بخاری کی تالیف کا کام مکمل کیا۔صحیح بخاری کے علاوہ بھی امام کی بہت سی تصانیف ہیں۔(زمانہ طالب علمی میں آپ کو کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا مگر آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کسی سے ذکر نہ کرتے)۔
آپ ۲۵۰ھ میں نیشا پور تشریف لے گئے۔وہاں کے عوام اور علما نے آپ کا بھر پور استقبال کیا۔آپ کے عالی مرتبے اور شہرت سے حسد کرنے والے کچھ لوگوں نے آپ پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کردیے جن سے تنگ آکر آپؒ نے بخارا کا رُخ کیا۔وہاں زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حاکم نے پیغام بھجوایا کہ آپ ہمیں اپنی کتاب بخاری سنایا کریں، اس خط کے جواب میں امام نے فرمایا کہ یہ دین کا علم ہے اور اگر اسے حاصل کرنے کی تڑپ ہے تو میرے گھر پر یا عام مجلس میں آیا کرو۔ حاکم کو یہ بات ناگوار گزری اور اُس نے آپ کو شہر سے نکال دیا۔اس کے بعد امام سمرقند چلے گئے اور وہیں آپ ؒ یکم شوال ۲۵۶ھ کو انتقال کرگئے۔
شیخ احمد یاسین (حماس کے بانی)
شیخ احمد یاسین ؒ ۱۹۳۶ء کو غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی آپ چار سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا،جس کے بعد گھر کی کفالت کی ذمہ داری بڑے بھائی نے سنبھال لی اور آپ کو مدرسے میں داخل کروادیا۔ابھی آپ چہارم جماعت میں تھے کہ یہودیوں نے گھر سے بے گھر کردیا اور آپ کے خاندان کو سمندر کنارے مہاجر کیمپ میں منتقل ہونا پڑا۔۱۶ سال کے تھے کہ ساحلِ سمندر پر ورزش کے دوران گردن کے مہرے ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے نچلے دھڑ کا مکمل حصہ فالج زدہ ہوگیا۔آپ نے ایسی حالت میں بھی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور ۱۹۵۸ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان اول پوزیشن سے پاس کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے غزہ کے اسکول میں بحیثیت عربی و دینیات کے مدرس فرائض انجام دینے شروع کیے۔
آپ نے پہلے ہی دن سے طے کیا کہ ہونہار طلبہ کو اپنے گرد لے کر آئیں گے اور انھیں دین کی طرف بلائیں گے۔استاد احمد یاسین نے اخوان المسلمون سے سیکھا ہوا سبق نئی نسل تک منتقل کرنا شروع کردیا۔ اس محاذ پر شیخ کو بہت سے معرکے بھی پیش آئے جن کا آپ نے ہمت اور جواں مردی سے سامنا کیا۔آپ نے اس کے علاوہ غزہ کی مسجد میں خطابت کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا حلقہ اثر وسیع ہوتا چلا گیا۔ آپ نے غزہ میں ایک تحریک برپا کرکے یہودیوں کے قبضے میں آنے والے شہروں میں جاکر بے آباد ہونے والی مسجدوںکو پھر سے آباد کرنا شروع کردیا۔غریب گھرانوں کی مدد کے لیے رفاہی ادارے قائم کیے اور نئی نسل میں جہادی روح کو بیدار کیا۔شیخ یاسین جس تندہی سے جہادی نرسری تیار کر رہے تھے دشمن اس سے غافل نہ تھا ۔ اس نے لوگوں پر پابندیاں لگائیںاور جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیالیکن فلسطینیوں کے عزم کو کمزور نہ کر سکا۔ منبر و محراب سے شروع ہونے والی اس تحریک کو شیخ نے حماس کا نام دیا جس کے جوان آج بھی پتھر اور غلیل اٹھائے غاصب یہودیوں کے سامنے بر سرِ پیکار ہیں۔ ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو فجر کی نماز کے بعد فلسطینی قوم کے اس عظیم رہنا اور سپہ سالار کو میزائل حملہ میں شہید کر دیا گیا۔
نیلسن منڈیلا(افریقا کے سابق صدر)
نیلسن منڈیلا ۱۸ جولائی ۱۹۱۸ء کو جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گائوں ماویزو میں پیدا ہوئے۔ منڈیلا نے ابتدائی تعلیم ایک چرچ سے حاصل کی ۔ جب ۹ سال کی عمر کو پہنچے تو والد کا پھیپھڑوں کے مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد میکازوینی منتقل ہوگئے جہاں آپ کی پرورش امیرِ شہر نے کی۔
میکازوینی میں اُنھوں نے انگریزی ، جیوگرافی اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی ۔
منڈیلا افریقا میں نسلی و رنگی امتیازات کے سخت خلاف تھے۔انھوں نے ۱۹۴۲ء میں افریقن نیشنل کانگریس میں حصہ لیا اور انگریزوں کے افریقیوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ۱۹۶۳ء میں حکومت نے ان کو جلائو گھیرائو اور تشدد کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ منڈیلا نے اپنی زندگی کے ۲۷ سال جیل میں گزارے۔ جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا نے مذاکرات کا راستہ اپنایااور افریکن نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۴ء کے جمہوری الیکشن میں منڈیلا افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے جس کے بعد اُنھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں افریقہ سے نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے میں صرف کیں۔۵سال کی صدارت کے بعد منڈیلا نے خود کو سیاست سے الگ کر کے سماجی خدمات کے لیے وقف کر دیا۔افریقی قوم کے اس عظیم رہنما نے ۵ دسمبر ۲۰۱۳ء کو جوہانسبرگ میں وفات پائی۔
ارسطو(معروف فلسفی)
ارسطو ۳۸۴ قبلِ مسیح میں یونان کے ایک قدیم شہر استاگرہ میں پیدا ہوا۔ ارسطو نے طب، ریاضی اور طبیعات کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا، جب دس سال کا ہوا تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔۱۸ سال کی عمر میں ارسطو ایتھنز چلا گیاجو اُس وقت علم و حکمت کا مرکز تھا۔ یہاں اس نے اپنے استاد افلاطون Platoسے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ارسطو صرف فلسفی ہی نہیں تھا بلکہ وہ علمِ حیوانیات، ریاضی، سیاسیات اور علمِ اخلاقیات پر قدیم علما کے نزدیک صاحب الراے مانا جاتا تھا۔ ارسطو کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے زیادہ ہے۔۳۳۵ قبلِ مسیح میں ایتھنز میں اپنے اسکول کی بنیاد ڈالی جہاں اس نے علمی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ اخیر عمر میں اپنے شاگرد سکندرِ اعظم کے نظریات سے اختلاف اور اس کی موت کے بعد یونان سے کوچ کر گیا۔ ارسطو نے ۷ مارچ ۳۲۲ قبلِ مسیح کو وفات پائی۔
ایگر ایلن پو
مشہور انگریزی شاعر اور ادیب ایگرایلن پو،۱۹ جنوری ۱۸۰۹ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا۔’ پو‘ کے والد اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی اسے چھوڑ گئے اورتین سال کی عمر میں ماں کی ممتا سے بھی محروم ہوگیا۔پو کے یتیم ہوجانے کے بعد جان اور ایلن نے لڑکپن تک اس کی پرورش کی۔ ’پو‘ کی زندگی میں مشکلات تب شروع ہوئیں جب وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گیااور ایک سال کے اندر ہی اسے فیس ادا نہ کرنے پر جامعہ سے نکال دیا گیا۔ ’پو‘ نے اپنے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور یہیں سے اس کے ادبی کیرئیر کا آغاز ہوا۔اس کی پہلی نظم Tamerlane ۱۸۲۷ء میں ــ’’بوسٹن کا شہری‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے بہت پذیرائی ملی۔ وہیں سے اس نے محسوس کیا کہ اسے فوج کی نوکری کے بجاے ادب پر توجہ دینی چاہیے۔ ’پو‘ ایک اچھا شاعر اور ذہین نقاد تھا لیکن بین الاقوامی طور پر اپنے افسانوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ پو عجیب الخلقت اور ڈرائونے ادب کا استاد اور سائنسی کہانیوں کا بانی اور ساتھ ہی ساتھ سراغرساں کہانیوں کا موجد بھی تھا ۔ پو کا انتقال ۷ اکتوبر ۱۸۴۹ء کو چالیس سال کی عمر میں بالٹیمور میں ہوا۔
محمد بن قاسم(عظیم فاتح)
محمد بن قاسم ۶۹۴ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباً پانچ سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ غربت کی وجہ سے اعلا تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت اُنھوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلا عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔پندرہ سال کی عمر میں سِن ۷۰۸ء میں ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے انھیںسپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی ۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر سترہ برس تھی۔اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور سترہ سال کی عمر میں انھیں سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کیے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی ماہ بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کابھی۹۶ھ میں انتقال ہوگیا۔ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشیں مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کو حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں گرفتار کر کے دمشق بھیج دیا۔ سلیمان نے انھیں قید خانے میں بند کروادیا۔ ۷ ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ ۷۱۵ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
٭…٭