Library

گھر میں لائبریری بنائیں!

کتابوں کو تنہائی کی بہترین ساتھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر قسم کا علمی مواد ہوتا ہے جن سے ہم خیر و شر میں تمیز سیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم و تفریح کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کے کئی ممالک کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ہاں کتابی شکل میں سفرناموں کے ذریعے ہم ملکوں ملکوں گھوم بھی سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انسانیت کی بھلائی کے لیے جو احکامات وحی کے ذریعے نازل کیے وہ آج کتاب ہی کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں، جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے۔
اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ آپ کو اچھی کتابوں کے مطالعے کا شوق بھی ہونا چاہیے۔ یہ مطالعہ آپ کو ان میں موجود اچھی باتوں پر عمل کرنے پر بھی مجبور کرے گا۔ مطالعے کے بعد آپ پر ایک فرض اور بھی بنتا ہے کہ آپ اس سفر کو آگے بڑھائیں یعنی دوستوں تک اس کتاب کو پھیلائیں تاکہ علم کا سفر جاری رہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد اسے گھر میں سنبھال کر رکھیں تاکہ ضرورت کے وقت یا کسی حوالے کے وقت ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔ اس کے لیے آپ کے گھر میں آپ کا ایک ذاتی کتب خانہ ہونا ضروری ہے۔ آج ہم آپ کو ذاتی کتب خانے کی اہمیت اور اسے بنانے کے بارے میں تفصیلاً بتاتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ جب اسکول، کالج اور عوامی سطح پر سرکاری اور نجی اداروں نے کتب خانے قائم کر رکھے ہیں تو پھر گھر مین علیحدہ لائبریری کیوں بنائیں؟
جواب یہ ہے کہ عوامی کتب خانے مخصوص اوقات کے لیے کھلتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی لائبریری سے آپ دورانِ تعلیم ہی کتب حاصل کرسکتے ہیں۔
جب آپ گھر میں کتب خانہ قائم کرنے کا ارادہ کریں تو اس کے لیے گھر میں یا کمرے میں کوئی جگہ مخصوص کرلیں۔ اس کے لیے الماری یا شیلف ہونا ضروری ہے، تاکہ کتابیں بے ترتیب نہ رہیں اور نہ ہی خراب ہوں۔ ترتیب سے رکھنے کا فائدہ تلاش کرنے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اب دوسرا مرحلہ کتابوں کا انتخاب کا اور خریداری ہے۔ آپ اپنی جیب خرچ سے کچھ رقم بچائیں۔ اگر آپ کے والدین کی مالی پوزیشن اچھی ہے تو ان سے بھی کتابوں کی خریداری کے لیے علیحدہ رقم لی جاسکتی ہے۔
کتابوں کی خریداری کا آغاز قرآن مجید سے کیجیے۔ قرآن مجید کا مستند ترجمہ اور تفسیر بھی ساتھ لیں۔ جب آپ ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائیں تو تفسیر بھی پڑھنا شروع کرسکتے ہیں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے کیا فرما رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے روشن پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے بعد سیرت پر مبنی مستند سیرت نگاروں کی کتب لیجیے۔
کوشش کیجیے کہ آپ بڑے مصنفوں کی کئی جلدوں پر مبنی کتابوں کے بجائے ایک جلد پر مبنی کتاب خریدیں۔
اللہ کے نیک بندوں، خلفائے راشدین اور علم و ادب کی بڑی شخصیات کے بارے میں پڑھ کر اس میں عزم و حوصلہ پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ سفرنامے، کہانیاں، ناول، اقوال زریں، معلومات عامہ، تحریکِ پاکستان کی شخصیات اور تاریخی ناول آپ کے پسندیدہ موضوع ہوسکتے ہیں۔
آپ کے شہر میں، اردو بازار تو ہوگا جہاں سے کتب مل سکیں۔ دوسری اہم جگہ کتب میلہ بھی ہوسکتی ہے، جہاں سے کئی اہم موضوعات پر بارعایت کتابیں لے کر گھر لائبریری میں سلیقے سے سجائی جاسکتی ہیں۔ کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی ایکسپو سینٹر میں سالانہ نمائش لگتی ہے۔ ان میں ضرور جائیں۔
لائبریری میں کتابوں کو موضوع کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ رکھیں۔ ہوسکے تو ان کے شیلف پر موضوع کا لیبل بھی لگادیں۔ الماری یا شیلف کے سب سے اوپر خانے میں قرآن مجید، حدیث رسول اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر اللہ والوں کیسیرت کی کتب رکھ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ اسلام پر بھی کتب رکھ دیں۔ اس کے نیچے دیگر شخصیات، معلومات، شاعری، اضافہ، کہانی، سوانح، سفرنامے، انسائیکلو پیڈیا اور لغت رکھ سکتے ہیں۔
اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ ایک ذاتی لائبریری کے مالک بن جائیں گے۔ اس سے آپ کے والدین، بہن بھائی، رشتے دار اور دوست بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔

Jungle

اوٹ پٹانگ

چوہے نے ایک بلی پالی
بلی نے اک شیر
شیر بچارا پیٹ کا مارا
کھائے سوکھے بیر
بیر کی گٹھلی پر سے اک دن
پھسل گیا اک اُونٹ
اونٹ کو گرتا دیکھ کے مرغی
دوڑی چاروں کھونٹ
مرغی کا واویلا سن کے
ہنسنے لگی اِک گائے
گائے کو ہنستا دیکھ کے بندر
بولا ہائے رے ہائے

Cage

پنجرہ

ٹرین ایک چھوٹے اسٹیشن پر رکی۔ ایک صاحب بھاگتے ہوئے ٹرین سے نکلے۔ بھاگتے بھاگتے ایک دکان کے اندر داخل ہوئے اور بولے:
’’بھائی… جلدی سے ایک پنجرہ دے دو۔ مجھے ٹرین پکڑنی ہے۔‘‘
دکاندار نے اُن صاحب کی طرف حیرت سے دیکھا اور بولا:
’’ مجھے افسوس ہے میرے پاس اتنا بڑا پنجرہ نہیں ہے۔‘‘
٭…٭

Chalak Sardar

چالاک سردار حیران رہ گیا

اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔احمد، فاطمہ اور زینب چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی نانی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ احمد کو اپنی نانی اماں بہت اچھی لگتی تھیں۔وہ ہر وقت مسکراتی رہتیں، بچوں سے پیار کرتیں اور انھیں بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں۔
اُس روز ماموں جان دفتر سے آئے تو بچوں کے لیے بہت ساری مونگ پھلیاں اور گزک لے کر آئے۔رات کے کھانے کے بعد نانی اماں عشا کی نماز پڑھ کر اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔تینوں بچے مونگ پھلیاں اور گزک لے کر اُن کے پاس آگئے۔احمد نے کہا:
’’نانی اماں!کہانی سنائیں!‘‘
نانی اماں نے تینوں بچوں کو اپنے کمبل میں لے لیا۔پہلے تو اُنھوں نے زینب سے کہا:
’’زینب بیٹا!ایک ٹوکری لے آؤ اورتم تینوں مونگ پھلی کے چھلکے اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے ٹوکری میں ڈالتے جاؤ۔‘‘
زینب جلدی سے ٹوکری لے آئی۔ نانی اماں نے اُسے شاباش دی اور کہانی شروع کی۔
’’آج میں تم کو ایک چالاک سردار کی کہانی سناؤں گی۔ اُس کا نام ہُرمُزان تھا۔ہُرمُزان ایرانیوں کے ایک فوجی لشکر کا سردار تھا۔اُس زمانے میں ایران کے لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو اپنا خدا سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی ہُرمُزان سے کئی جنگیں ہوئیں۔ ہر جنگ میں وہ ہار جاتا۔ ہار کر میدان سے بھاگ جاتا۔ایک جنگ میں ہار کر اُس نے مسلمانوں سے صلح بھی کر لی۔ صلح کرکے اُس نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ کر لیا۔‘‘
’’جِزیہ کیا ہوتا ہے نانی اماں؟‘‘
فاطمہ نے نانی اماں سے پوچھا۔ نانی اماں نے فاطمہ کے منھ پر سے گزک کا ٹکڑا صاف کرتے ہوئے اُسے بتایا:
’’بیٹا!اسلامی حکومت، غیر مسلموں سے اُن کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے بدلے جو ٹیکس لیتی ہے، اُسے جِزیہ کہتے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر نانی اماں نے کہانی پھر وہیں سے شروع کی، جہاںسے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
’’ہاں … تو ہُرمُزان نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ تو کر لیا، مگر وعدہ پورا نہیں کیا۔ دھوکا دیا۔اُس نے دو مرتبہ ایسا کیا۔ تیسری بار وہ ایران کے ایک شہر تستر میں جا کر ایک قلعے میں بند ہوگیا۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک پیارے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تستر پر حملہ کیا اور شہر فتح کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔ہُرمُزان نے ایک بار پھر ہتھیار ڈال دیے،مگر اِس بار اُس نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنی یہ شرط منوائی کہ اُسے ہتھیار ڈالنے کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اُس وقت مسلمانوں کے سربراہ یعنی امیرالمومنین تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ نے اُس سے وعدہ کر لیا اور یہ وعدہ پورا کیا…‘‘
’’نانی اماں!مسلمانوں نے ایسے دھوکے باز آدمی سے وعدہ کیوں پورا کیا؟ مسلمانوں کو بھی بدلے میں اُسے دھوکا دینا چاہیے تھا۔‘‘ احمد نے نانی اماں کی بات کاٹ کر بڑے غصے سے کہا۔ نانی اماں نے اُسے پیار کیا اور کہا:
’’توبہ توبہ … نہیں بیٹا!ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔مسلمان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے، اُس کا کوئی دین ایمان ہی نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔‘‘
زینب نے کہا: ’’نانی اماں!بھائی کی بات چھوڑیں۔ آپ آگے کہانی سنائیں۔‘‘
نانی اماں نے کہا: ’’ہُرمُزان جب مدینہ پہنچا تو اُس نے اپنے سر پر تاج رکھا ہوا تھا۔سونے کے دھاگوں سے سلے ہوئے ریشمی کپڑے ’’دِیبا‘‘ کی قبا پہنے ہوئے تھا۔بہت سارے ہیرے جواہرات اورزیورات بھی گلے میں ڈال رکھے تھے۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اُس وقت مسجد نبوی کے فرش پر اکیلے لیٹے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر کے عمامے کا تکیہ بنایا ہوا تھا۔
ہُرمُزان کو امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہُرمُزان ہے۔یہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
امیر المومنین نے فرمایا:’’جب تک یہ اپنے اس لباس میں رہے گا، میں اُس سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
ہُرمُزان جب اپنے کپڑے تبدیل کرکے عام لباس میں آیا تو امیرالمومنین نے اُس سے پوچھا:’’تو بار بار بدعہدی (یعنی وعدہ خلافی) کیوں کرتا رہا؟ تیرے پاس کیا جواب ہے؟‘‘
ہُرمُزان نے کہا: ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ میرا جواب سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: ’’ڈرو مت۔ تمھارا جواب ضرور سناجائے گا۔‘‘
پھر ہُرمُزان نے پانی مانگا۔ پانی آیا تو اُس نے پیالہ ہاتھ میں لے کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا اور کہنے لگا:
’’مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت ہی میں قتل نہ کردیں۔‘‘
امیر المومنین نے فرمایا: ’’تم خوف نہ کھاؤ۔ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر اُس نے پیالہ زمین پر پٹخ کر توڑ دیا اور کہا:
’’اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اب تو یہ پانی زمین میں مل چکا ہے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ہُرمُزان کے چالاکی دکھانے اور دھوکا دینے پر بہت غصہ آیا،لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’ہُرمُزان!تونے مجھے دھوکا دیاہے، لیکن میں تجھے دھوکا نہیں دوں گا۔اسلام نے ہمیں اُس کی تعلیم نہیں دی۔ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘‘
یہ بات سن کر چالاک سردار حیران رہ گیا۔
وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اِس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوہزار درہم سالانہ اُس کی تنخواہ مقرر کر دی اور وہ مدینہ منورہ میں ہی رہنے لگا۔‘‘
کہانی ختم کرکے نانی اماں نے بچوں سے کہا:
’’اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی، جب کسی سے کوئی وعدہ کریں تو اُسے ہر حال میں پورا کریں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ یہی مسلمان کی شان ہے۔‘‘


٭…٭

Dosti Tot Gai

دوستی ٹوٹ گئی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جماعت میں دو دوست ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ دونوں میں سے ایک پڑھائی میں کمزور اور دوسرالائق بچہ تھا۔ لائق بچہ تھا تو بہت محنتی لیکن غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔جب کہ پڑھائی میں کمزور بچے کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا۔ دونوں پکّے دوست تھے مگر ایک دن آپس میں ان کا جھگڑا ہوگیااور ان کی دوستی ٹوٹ گئی۔
غریب بچہ دل کا بہت اچھا تھا، اس کے بر عکس امیر لڑکا دل میں حسد اور بغض رکھتا تھا۔ امتحان شروع ہونے والا تھا۔ امیر بچے کی خواہش تھی کہ وہ کلاس میں اوّل پوزیشن لے کر اپنے دوست کو کم تر اور نیچا دکھائے۔ اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور غریب بچے نے کلاس میں اوّل پوزیشن لی۔ اساتذہ نے اس کی بہت تعریف کی۔ امیر بچّہ اب اس سے اور حسد کرنے لگا۔
جب وہ دونوں نئی جماعت میں گئے تو آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔
ایک دن امیر بچہ اچانک گر گیا اور اسے شدید چوٹ لگی۔ اسے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں آیالیکن صرف اس کاغریب دوست آیا۔ غریب دوست نے اس کی نہ صرف مدد کی بلکہ بھاگتے بھاگتے جا کر سکول میں موجود ڈاکٹر کو بھی بلا لایا۔ امیر بچّہ اپنے دوست کے خلوص اور محبت سے بہت متاثر ہوا۔ امیر بچّہ اپنے کیے پہ شرمندہ تھا اور اس نے اپنے دوست سے معافی مانگی اور دونوں دوبارہ بھائی بھائی بن کر رہنے لگے۔