کیا گدھا بے وقوف جانور ہے؟

گدھا بے چارہ ویسے ہی بدنام ہے۔یہ وہ جانور ہے ، جسے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی سواری ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بیوی بچوں سمیت مدین سے مصر تک کا سفر اسی جانور پر کیا۔اس کی آواز تمام جانوروں میں بری ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ اپنی آواز دھیمی رکھنا کیوں کہ بد ترین آواز گدھے کی ہوتی ہے۔

حلیہ:
گدھے کا رنگ خاکستری اور دُم گھوڑے سے چھوٹی ہوتی ہے۔ گدھے گھاس چرتے ہیں ۔
گھوڑے کے مقابلے میں گدھا باربرداری (بوجھ اُٹھا کر چلنے) کے لیے زیادہ موزوں جانور ہے۔
ایسے تنگ اور دشوار گزار راستے جہاں دوسرے جانور جانے سے خوف کھاتے ہوں، گدھا مزے سے چلتا ہے۔
گدھا کس کام کا:
زمانہ قدیم ہی سے یہ جانور باربرداری کے کام آتا ہے ۔ مصریوں نے ۳۰۰۰قبل مسیح میں اُس کی مدد سے شاندار اور بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کیں ۔
گدھا سیدھا سادہ جانور ہے اور کبھی بوجھ اُٹھانے یاکام کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ اِس وجہ سے بے وقوف مشہور ہو گیا ہے۔اِس گدھے پن اور بے وقوفی کے باوجود انسان کا مشکل ترین کام گدھا ہی کرتا ہے ۔ صبر کرنے میں اُس کا جواب نہیں۔ ۲۵سے ۴۰سال تک زندہ رہتا ہے۔
باربرداری کے علاوہ چکی پیستا ہے ، پانی بھر کے لاتا ہے، بعض جگہ رہٹ چلاتا ہے۔
بادشاہوں نے بھی گدھے پر سواری کی ہے۔ پرانے زمانے میں امن کے مشن پر جانا ہوتا تھا تو گدھے کو استعمال کرتے تھے ، جب کہ گھڑسواری جنگ کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں گدھے پر سوار داخل ہوئے تھے۔
گدھوں کی اقسام:
خچر باربرداری اور سواری کے کام بھی آتا ہے۔ ا مریکا میں ٹریکٹر سے پہلے خچر ہی ہل جوتنے کے کام آتا تھا۔پالتو گدھے اور خچر کے علاوہ جنگلی گدھے بھی ہوتے ہیں۔ ایشیائی جنگلی گدھا پاکستان میں عام تھا ،یہاں تک کہ بہاولپور کے نواب نے جنگ کے دوران میں ایک صحرائی مہم میں سیکڑوں جنگلی گدھے شکار کر کے اپنی فوج کا پیٹ بھرا۔
یہ ایران، افغانستان، بلوچستان اور سندھ میں رَن کچھ میں عام ملتا تھا ۔ یہ پالتوگدھے سے خوبصورت، سُرخی مائل سفید ٹانگوں والا جانور ہے ۔ کان چھوٹے ہوتے ہیں اور ٹانگوں کے اوپر کے حصے پر دھاریاںنہیں ہوتی۔ سر بڑا اور تھوتھنی گولائی میں ہوتی ہے۔ ایال پر (یعنی گردن کے اوپری حصے پر) بال سخت ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے رَن کچھ کے اب یہ تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ لوگ جیپ میں بیٹھ کر اُس کا شکار کرتے رہے اور یہ سوچ کر کہ یہ فصلوں کو خراب کرتا ہے ۔ اُس کا شکار کرنا اچھا سمجھتے تھے۔
گدھوں کے باپ دادا:
افریقا کے صومالی جنگلی گدھے شاید پالتو گدھے کے آباواجداد تھے۔ پاکستان کے جنگلی گدھے کے مقابلے میں اُس کے کان لمبے اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ رنگ سلیٹی ہوتا ہے ۔ آنکھوں کے گرد سفید حلقے ہوتے ہیں اور کمر اور بازو پر کالی دھاری ہوتی ہے ۔ الجزائر کا جنگلی گدھا ختم ہو چکا ہے لیکن سوڈان، صومالیہ اور بحر احمر کا جنگلی گدھا محدود تعداد میں اب بھی ملتا ہے ۔ اُس کے علاوہ صحراے گوبی میں منگولی جنگلی گدھا اور اس سے ملتا جلتا تبت میں پایا جاتا ہے ۔

گدھا پاکستان میں
گدھاگاڑی پاکستان میں بہت مقبول ہے ۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں تنگ اور گنجان علاقوں میں جہاں ٹرک وغیرہ نہیں جا سکتے، گدھا گاڑی کار آمد ہے ۔
کراچی میں چھوٹی نسل کے گدھے سڑک پر گدھا گاڑی کو سر پٹ دوڑاتے ہیں۔ کراچی میں گدھا گاڑی کی باقاعدہ دوڑ ہوتی ہے۔ پشاورجیسے شہر میں پرانا رواج ہے کہ گدھے پر سبزی اور پھل بیچتے ہیں۔ یہ چلتا پھرتا بازار ہے، نہ دکان کی ضرورت نہ کسی اور چیز کاغم۔ پاکستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بلندی پر سامان پہنچانے کے لیے گدھا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

٭…٭