ساڑھے گیارہ سو برس پہلے کی بات ہے کہ اندلس پر بادشاہ حکم کی حکومت تھی۔ ایک روز دارالحکومت کے قریب بادشا ہ کو اپنے محل کی تعمیر کے لیے ایک ٹکڑا زمین بہت پسند آیا۔ یہ زمین ایک بوڑھی عورت کی ملکیت تھی، وہ عورت وہیں ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ بادشاہ نے اسے زمین کا مناسب معاوضہ پیش کرنا چاہا لیکن بڑھیا نے انکار کردیا۔ بادشاہ نے زمین کی دوگنی قیمت لگادی لیکن بڑھیا نہ مانی، بادشاہ کو بڑھیا کی جسارت پر سخت غصہ آیا اور اس نے اس کی زمین جبراً سرکاری تحویل میں لے لی اور وہاں ایک عالی شانِ محل تعمیر کرایا۔
کچھ عرصے بعد بادشاہ نے قاضی کو اپنا نیا محل دیکھنے کے لیے مدعو کیا۔ قاضی محل دیکھنے گیا اور اپنا ایک گدھا بھی لے گیا جس پر خالی بورے لدے ہوئے تھے۔ بادشاہ نے قاضی کو گدھے کے ساتھ آتے دیکھا تو سخت حیران ہوا لیکن خاموش رہا۔ قاضی نے بادشاہ سے درخواست کی: ’’جہاں پناہ! مجھے اس محل کے باغ سے مٹی کے کچھ بورے بھر لینے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔‘‘ بادشاہ اور زیادہ حیران ہوا، تاہم اس نے خوشی سے اجازت دے دی۔ قاضی نے باغ کی مٹی سے کچھ بورے بھرلیے اور بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ مٹی کا ایک بورا اٹھا کر گدھے پر لادنے میں اس کی مدد کریں۔ قاضی کی اس درخواست پر بادشاہ کو ہنسی آگئی اور اس نے مٹی کا بورا اٹھوانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکا۔
قاضی نے کہاـ: ’’جہاں پناہ! اگر آپ مٹی کا ایک بورا بھی نہیں اٹھا سکتے تو روز قیامت جب اللہ آپ کو حکم دے گا کہ وہ تما م زمین جو آپ نے زبردستی حاصل کی ہے اٹھا کر اس کے مالک کو واپس دیں تو آپ ساری زمین کو کیسے اٹھاسکیں گے؟‘‘۔
بادشاہ قاضی کی بات سن کر نادم ہوا۔ اس نے اسی وقت بڑھیا کو بلایا اور اس سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔ ’’اماں! مجھے معاف کرو۔ آج سے یہ محل اور یہ باغ سب تمھارا ہے‘‘۔
قاضی بادشاہ کے اس اقدام سے بہت خوش ہوا۔
٭…٭