Miss Mano ki miyaoun Miyaoun

مس مانو کی میاؤں میاؤں!

’’میں آؤں؟ … میں آؤں؟ … میں آؤں؟‘‘
مانو بلی نے منو میاں کو مصروف دیکھا تو کھڑکی سے جھانکتے ہوئے اخلاقاً پوچھ لیا:
’’میں آؤں؟‘‘
منومیاں نے کچھ لکھتے لکھتے اپنی کاپی سے سر اُٹھایا اورمانو کی طرف دیکھ کر بولے:
’’ضرور … ضرور … بڑی خوشی سے!‘‘
مگربی مانو کوشاید اب بھی کچھ جھجک سی محسوس ہو رہی تھی۔ سو،اُنھوں نے ایک بار پھر اپنی سُریلی آواز میں سوال کیا:
’’میں آؤں؟‘‘
منو میاںنے بھی ایک بار پھر بڑے مہذب انداز میں جواب دیا:’’جی ہاں!میں نے عرض کیانا کہ آپ تشریف لا سکتی ہیں۔‘‘
لیکن بی مانو کو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ منو میاں اپنی پڑھائی میں خلل پڑنے سے خفا نہیں ہوں گے، احتیاطاً انھوں نے پھر پوچھا:
’’میں آؤں؟‘‘
اب منو میاں بھی کچھ جھنجھلا گئے۔ جھنجھلا کر کہنے لگے:
’’ارے بھئی!آپ کب تک کھڑکی میں اٹکی ہوئی ’میں آؤں… میں آؤں‘ کی رَٹ لگاتی رہیں گی؟ اب آ بھی چکیے۔‘‘
مگر اتنی کھلی اجازت مل جانے کے باوجود مانو نہ مانی، پھر پوچھ بیٹھی: ’’میں آؤں؟‘‘
اب تو منومیاں کا پارہ چڑھ گیا۔غصے سے بولے:
’’ارے بی مانو!آپ کو ہمیں چڑانے میں کیا مزہ آرہا ہے؟ کہہ تو دیا کہ آجائیے۔‘‘
منو کا موڈ خراب ہوتے دیکھ کر مانونے معذرت بھرے لہجے میں کہا:’’میں بار بار صرف اِس لیے پوچھ رہی تھی کہ اگر آپ کسی ضروری کام میں مصروف نہ ہوں تو …میں آؤں؟‘‘
منو میاںاب تک اچھے خاصے چڑ چکے تھے۔ناک چڑھا کر چیخے:’’محترمہ!آپ دیکھ چکی کہ میں اپنا ’ہوم ورک‘ کرنے میں مصروف تھا،مگر جب آپ سر پر سوار ہو ہی گئی ہیں تو میں بھلا آپ کو کیسے بھگا سکتا ہوں؟آئیے!‘‘
مانو کو شاید یہ بات بُری لگ گئی۔ جھٹ بولیں:
’’نہیں، نہیں!اگر آپ اِس وقت بہت مصروف ہیں تو … میں جاؤں؟‘‘
منو میاںنے قلم ہاتھ سے رکھتے ہوئے کہا:
’’اِس سے پہلے کہ اب آپ… ’میں جاؤں، میں جاؤں‘… کی رٹ لگانا شروع کردیں۔ یہ فرمائیے کہ آپ نے کیسے زحمت کی؟ کیا آپ کسی ضروری کام سے تشریف لائی تھیں؟‘‘
مانو بلی نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا:
’’کوئی خاص کام تو نہیں تھا۔ بس باہر کی دیوار پر بیٹھی بور ہو رہی تھی۔وہیں سے کھڑکی پر نظر پڑی تو آپ کو بیٹھے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ کچھ دیر آپ ہی سے میاؤں میاؤں کرلوں۔‘‘
’’اچھا… تو کیجیے۔‘‘
’’اوہو… آپ نے تو بڑی ٹھنڈی سانس بھر کر …’اچھا تو کیجیے‘… کہاہے۔ کیا آج آپ کو بہت مشکل ’ہوم ورک‘ مل گیا ہے؟‘‘
’’ہاں بی مانو!ہے تو مشکل، مگر مزے دار بھی بہت ہے۔‘‘
’’ایسا کون سا کام ہے جو مشکل بھی ہے اور مزے دار بھی…؟‘‘
’’ارے بی مانو!یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔‘‘
’’کیوں نہیں آئے گی؟‘‘مانو نے برا مان کر کہا:’’مانا کہ مانو اَن پڑھ ہے، مگر ناسمجھ نہیں ہے۔سب سمجھتی ہے۔ آپ سمجھائیے نا۔‘‘
منو میاں نے سوچا کہ بی مانو تو کمبل ہی ہو گئی ہیں۔ منھ بناکراُنہی کے لہجے میں جواب دیا:
’’مانا کہ مانو بہت سمجھ دار ہے، مگر یہ باتیں ایسی باتیں ہیں کہ بڑے بڑے سمجھ دار لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتیں۔‘‘
مانو بلی نے منو کی اِس بات کو بھی دل پر لے لیا۔کہنے لگی:
’’جناب!میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں۔آپ جب بہت چھوٹے سے تھے تو ایک بار ایسا ہوا کہ گھر سے باہر نکلے اور کھو گئے۔ مسجدوں میںاعلان کرانا پڑا۔ گھر والوں اور محلے والوں کو بازاروں، گلیوں اور پارکوں میںآپ کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگنا دوڑنا پڑا۔ آخر آپ حَلُّو حلوائی کی دُکان کے پاس روتے ہوئے مل گئے۔لیکن مجھے آپ شہر کے کسی کونے میں چھوڑ آئیے، واپس سیدھی گھر پہنچوں گی۔‘‘
’’یہی تو مشکل ہے… ہم آپ کو کہیں چھوڑ کر بھی نہیں آسکتے۔آپ کی والدہ محترمہ نے تو آپ کو پیدا ہوتے ہی محلے کے سات گھر جھنکوا دیے ہوں گے۔ باقی گھر آپ نے خود جھانک لیے ہیں۔ آپ سے پیچھا چھڑانا تو ناممکن ہی نظرآتا ہے۔‘‘
مانو خوش ہو کر کہنے لگی: ’’اب آپ نے ہار مان ہی لی ہے تو مجھے بھی بتا دیجیے کہ آپ کس مشکل میں پڑ گئے ہیں؟‘‘
’’محترمہ!مجھے کچھ محاوروں اور ضرب الامثال کا مطلب لکھنا ہے،اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب آپ ہی سے متعلق ہیں۔‘‘
اب تو مانو اور بھی خوش ہو گئی۔ خوشی سے بولی: ’’اچھا؟ میرے متعلق ہیں؟سنائیے!‘‘
’’لیجیے سنیے۔پہلی ضرب المثل ہے… نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔‘‘
’’آئے ہائے توبہ توبہ استغفار۔منومیاں!یہ ضرب المثل تو کسی نے ہم بلّیوں کو بلاوجہ بدنام کرنے کے لیے گھڑی ہے۔جب کوئی شخص برے برے کام کرنے کے بعد یکایک نیکی کے کسی کام کی طرف راغب ہو جائے تو ایسے موقع پریہی بولتے ہیں۔اوّل تو اللہ کسی کو کسی وقت بھی ہدایت دے سکتاہے۔ کوئی شخص بھی زندگی کے کسی بھی دور میں برائی کا راستہ چھوڑ کر سیدھی راہ پر لگ سکتاہے۔اُس وقت اُس کا مذاق اڑانے کی بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اُس کی تعریف کرنی چاہیے کہ اُس نے برے کام چھوڑ کر نیکی کے کام کرنے شروع کر دیے ہیں، مگر اُس پر طنز کیا جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ ہم بلّیاں جو چوہے کھاتی ہیں تو یہ کوئی بُرا کام تو نہیں۔بلّیاں توآپ کو نقصان سے بچاتی ہیں۔ چوہے آپ کی کتابیں اور کاغذ کتر دیتے ہیں۔روٹی نوچ لیتے ہیں۔ کپڑے کاٹ ڈالتے ہیں اور بیماریاں الگ پھیلاتے ہیں،لہٰذا کسی بلّی نے اگر نو سو چوہے کھا لیے ہیں تو بڑی نیکی کا کام ہی کیا ہے۔ اب اگر وہ حج کو بھی چلی ہے تو اُسے چلے جانے دیجیے۔کیوں اُس کا رستہ روکتے ہیں؟‘‘
’’چلیے آئندہ نہیں روکیں گے،مگر رستہ روکنے پر یاد آیا کہ آپ بلّیاں اکثر انسانوں کا رستہ کاٹ جاتی ہیں۔ اچھا بھلا انسان اپنے کسی کام سے جارہا ہوتاہے کہ بے چارا یہ کہہ کر واپس آجاتا ہے کہ کام کیا خاک ہوگا؟ ’بلی رستہ کاٹ گئی‘… آخرآپ کو ہم انسانوں کے کسی کام میں کھنڈت ڈال دینے میں کیا مزہ آتاہے؟‘‘
’’کام میں نہیں، آپ کے ’وہم‘ میں کھنڈت ڈالنے میں مزہ آتا ہے۔آپ انسان تو اشرف المخلوقات ہیں۔کیا آپ کو معلوم نہیں کہ فائدہ، نقصان، کامیابی اور ناکامی سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ بلی بے چاری کے اختیار میںتوخود اپنی کامیابی اور ناکامی بھی نہیں ہوتی۔ وہ بھلا انسانوں کا کوئی کام کیسے خراب کر سکتی ہے۔ یہ تو اتفاق ہوتاہے کہ کسی راستے پر کوئی انسان بھی جارہا ہوتا ہے اور کوئی بلی بھی جا رہی ہو۔دونوں کی کسی جگہ کراسنگ بھی ہو جاتی ہے۔کبھی کبھی انسان بھی ہمارا رَستہ کاٹ جاتے ہیں مگر ہم تو اِس وہم میں نہیں پڑتے کہ لوجی!انسان ہمارا رستہ کاٹ گیاہے، اب چوہا کیا خاک ملے گا؟‘‘
’’بھئی مانو!ہم مان گئے آپ کو۔ آپ تو بالکل ہماری مس کی طرح سمجھاتی ہیں۔ اب ہم آج سے آپ کو ’مس مانو‘ کہا کریں گے۔ آپ نے فائدے نقصان کی بات کی ہے تو ہمیں بھی ایک نقصان یاد آگیا۔ نقصان ہوتاہے انسان کا اور فائدہ ہوتا ہے آپ کا۔ کہتے ہیں کہ ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ یہ چھینکا کیا ہوتاہے؟ اور کیایہ آپ کے بھاگنے سے ٹوٹ جاتاہے؟‘‘
یہ سوال سن کر مانو نے ایک چھینک ماری،پھر ہنستے ہوئے بولی:
’’نہیں بھئی۔ایسی بات نہیں۔ بات یہ ہے کہ آپ لوگ اپنا تو بڑا خیال رکھتے ہیں، مگر ہمارا ذرا بھی خیال نہیں کرتے۔اپنی چیزیں تو ٹھنڈی الماری (فریج)یا نعمت خانے میں چھپا کر رکھتے ہیں اور جب بھوک لگتی ہے تو فوراً چٹ کر جاتے ہیں۔ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم بولائے بولائے پھرتے ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب فریج وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔سب چیزیں باورچی خانے میں رکھی جاتی تھیں۔ ہائے کیا سنہرے زمانے تھے۔ ہمارے لیے بڑی آسانیاں تھیں۔جب بھوک لگی تو آپ کے باورچی خانے میں رکھا ہوا دودھ پی آئے، گوشت کھالیا یا مچھلی ہڑپ کرلی۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ انسان نے ہم سے تنگ آکر ’چھینکا‘ ایجاد کیا۔چھت سے رسّیاں لٹکا کر اُن سے کوئی تھال، کوئی رسّی کا جال، کوئی ٹوکری یا کوئی طشتری باندھ دی جاتی۔اُسی پر دودھ، گوشت یا مچھلی کا سالن رکھ کر لٹکا دیا جاتا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ مچھلی ہماری مرغوب غذا ہے۔ اُس کی خوشبو ہی ہمیں پاگل کر دیتی ہے۔’چھینکے‘ پر چڑھنے کے لیے ہمیں کوئی راستہ ہی نہ ملتا۔ اتنی اونچی اور لمبی ہائی جمپ لگانا بھی آسان کام نہ ہوتا۔ نشانہ خطا ہو جاتا تو غلط جگہ جا گرتے۔اِس وجہ سے ہمارے لیے اُس پر سے کوئی چیز اُتارنا ممکن نہ ہوتا۔ہاں کبھی کبھی قسمت کام کر جاتی اور رسی کمزور ہوجانے سے یا کسی اور وجہ سے خود چھینکا ہی ٹوٹ جاتا تو بس پھر ہمارے عیش ہو جاتے۔ ہندی زبان میں قسمت کو ’بھاگ‘ کہتے ہیں۔’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ کا مطلب ہے کہ بلی کی قسمت سے چھینکا ٹوٹ گیا،لہٰذا جب کسی اتفاقی حادثے کے نتیجے میں کسی شخص کو کوئی ایسی نعمت مل جائے، جو عام حالات میںاسے ملنا آسان نہ ہو توکہتے ہیں کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘۔
’’مس مانو!ابھی آپ نے بھوک سے اپنے بولائے بولائے پھرنے کی بات کی ہے،مگر کوئی انسان بولایا بولایا پھرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ’’جلے پاؤں کی بلی‘‘ کی طرح پھررہاہے۔یہ کیا بات ہوئی؟‘‘
’’آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ ہمارے تلوے بڑے نازک، نرم اور گدیلے ہوتے ہیں۔ ہم چاہے کتنی ہی اونچائی سے چھلانگ لگائیں، اِن گدیلے تلووں کی وجہ سے ہمیں چوٹ نہیں لگتی۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی آدمی کوئی کام ہوشیاری سے کرتا ہے اور کام کرتے ہوئے اپنے آرام اور اپنی حفاظت کا پورا پورا خیال رکھتا ہے تو اُس موقع پر بھی ایک ضرب المثل استعمال کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ’’بلی گرتی ہے تو پنجوں کے بل‘‘۔ مطلب یہ کہ سمجھ دار لوگ ہرکام سمجھ داری کے ساتھ کرتے ہیں۔آپ نے جو ضرب المثل پوچھی ہے اُس کے پیچھے یہ حقیقت پوشیدہ ہے کہ اگر ہمارے تلوے جل جائیں تو ہمیں چلنے میں بڑی تکلیف ہوتی ہے اور مارے تکلیف کے ہم بلیاں ’’میاؤں میاؤں‘‘ کے بجائے ’’پیاؤں پیاؤں‘‘ کرتے ہوئے بے چینی سے پھرنے لگتی ہیں اورہمیں کسی طرح چین نہیں پڑتا۔ اگر کوئی انسان بھی کسی پریشانی میں پڑ کر اِسی طرح بے چینی سے چیختا چلاتا پھرنے لگے تو ایسے موقع پر کہتے ہیں کہ وہ ’’جلے پاؤں کی بلی‘‘ کی طرح پھر رہا ہے‘‘۔
’’بھئی آپ سے میاؤں میاؤں کر کے تو واقعی ہماری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے،مگر یہ بتائیے کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ’’بلی سے اتنا ڈر نہیں لگتا، جتنا اُس کی میاؤں سے ڈر لگتاہے‘‘۔کیا آپ کی میاؤں اتنی ڈراؤنی ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاہاہاہا… میاؤں، میاؤں…منومیاں!اگر ہماری میاؤں ڈراؤنی ہوتی تو آپ کب کے ڈر کر بھاگ چکے ہوتے۔ یہ بات تو چوہوں نے مشہور کر رکھی ہے۔ وہ بے چارے بھی کیا کریں؟ ہم سے ڈرتے جو ہیں۔ہوا یوں کہ ایک بار چوہوں نے ہم سے تنگ آکراپنی کل جماعتی کانفرنس کی۔ ایجنڈا یہ تھاکہ آج بلی کا بندوبست کرکے رہیں گے۔ ایک چوہے نے کہا:’میں لپک کر بلی کے پنجوں کو چمٹ جاؤں گا۔‘
دوسرے چوہے نے کہا:’میں اُس کے ناخن کتر دوں گا۔‘
تیسرے نے کہا:’میں اُس کی ناک اپنے تیز دانتوںسے کاٹ لوں گا۔‘
چوتھا بولا:’میں اُس کے کان پکڑ کرکھینچ بھاگوں گا۔‘
پانچویں چوہے نے بڑھک لگائی کہ :’میں اُس کی دُم پکڑ کر لٹک جاؤں گا۔‘
اجلاس کی صدارت ایک بڈھا چوہا کر رہا تھا۔سب کے سب خیالی پلاؤ پکارہے تھے اور وہ چپ چاپ بیٹھا سن رہا تھا۔
آخر ایک چوہے نے کہا: ’حضرت!آپ بھی تو کچھ فرمائیے۔‘
صدر صاحب نے کہا:’ارے بچو!تم سب دیوانے ہو گئے ہو۔جب وہ ایک مرتبہ غرا کر ’میاؤں‘ کہے گی تو تم سب کا دَم نکل جائے گا۔بلی کی باقی چیزوں کو تو پکڑا جاسکتا ہے، مگر اُس کی ’میاؤں‘ کو کون پکڑے گا؟‘
اتنے میں ایک بلی وہاں آگئی اور اس نے غرا کر کہا: ’میاؤں!‘
بس یہ سنتے ہی سب کے ہوش اُڑ گئے اور سب کے سب بے ہوش ہو گئے۔منو میاں!یہ محاورہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب بتانا ہو کہ زبردست اور طاقتور کا رعب ہی کافی ہوتا ہے۔ ہوش اُڑانے کے لیے صرف اُس کی دھمکی ہی بہت ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا تو کیا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا فیصلہ چوہوں کی اُسی کل جماعتی کانفرنس میں ہوا تھا؟‘‘
’’نہیں، اِس مقصد کے لیے دوسری کانفرنس طلب کی گئی تھی۔اِس کانفرنس میں سب چوہے سر جوڑ کر بیٹھے کہ بلی کے چلنے کی آہٹ تو ہوتی نہیں، وہ چپکے سے آجاتی ہے اور ہمیں کھا جاتی ہے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ ہمیں پہلے سے پتا چل جائے کہ بلی آرہی ہے۔آخر اِس کانفرنس نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ بلی کے گلے میں ایک گھنٹی باندھ دی جائے جو اُس کے چلنے پر بجتی چلی جائے۔ یوں ہمیں پہلے سے پتا چل جائے گا کہ بلی اِدھر آرہی ہے۔ اِس موقع پر بھی اُسی بڈھے چوہے نے پوچھا:’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟‘‘
یہ سوال سنتے ہی سارے کے سارے سُورما چوہے وہاں سے کھسک لیے۔بس یہ محاورہ ایسے ہی موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی جرأت مندانہ کام کے لیے بڑے بہادری کے منصوبے بنائے جائیں، مگر بہادری کا یہ کام کرنے کی ہمت کسی میں نہ پائی جاتی ہو۔‘‘
’’اچھا تو کیا ’چوہے بھاگ بلی آئی‘ کا محاورہ بھی اِن ہی واقعات سے نکلا ہے؟‘‘
’’یہی سمجھ لیجیے۔یہ محاورہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کمزور کو کسی طاقتوردشمن سے ڈرا کر بھگانا ہو۔‘‘
’’مس مانو!آپ کی ’میاؤں‘ پر ایک محاورہ اوربھی تو ہے، ’’ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’یہاں ’میاؤں‘ سے مراد ہے غرانا۔جب کوئی چھوٹا اپنے کسی بڑے کے برابر بننے کی کوشش کرنے لگے۔ شاگرد اُستاد کو سکھانے پڑھانے پر اُتر آئے، نوکر اپنے آقاکے منھ آنے لگے یا غلام اپنے مالک کو عقل سکھانے لگے تو ایسے موقع پر کہا جاتا ہے: ’’ہماری بلی ہم ہی سے میاؤں‘‘۔یعنی ہم نے تمھیں سکھایا پڑھایا، قابل بنایا اب تم ہمیں ہی بے وقوف سمجھنے لگے؟‘‘
’’ہاں!یہ تو ادب آداب کے خلاف بات ہے۔اچھا یہ بتائیے کہ چوہوں سے تو آپ کی پرانی دشمنی ہے،مگر یہ ’’چوہے بلی کا کھیل‘‘ کیا چیزہے؟ کیا دشمنی کے باوجود آپ چوہوں سے دوستانہ کھیل کھیلتی ہیں؟‘‘
’’بھئی ہم چوہے کو پکڑنے کے لیے بھاگتے ہیں تو چوہابھی جان بچانے کے لیے بھاگتاہے۔جدھر جدھر چوہا بھاگتا ہے اُدھراُدھر ہم بھی اُس کا پیچھا کرنے کو بھاگتے ہیں۔کبھی ہم لوگ چھپ کر چوہے کا انتظار کرتے ہیں، کبھی چوہا کہیں چھپ کر ہمارے جانے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔اگر انسانوں میں بھی اسی طرح کی صورتِ حال پیدا ہوجائے کہ لوگ ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے آگے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔ ایک دوسرے کی تاک میں بیٹھے ہوں۔ایک دوسرے کی گھات میں لگے ہوئے ہوں، مگر پکڑے نہ جارہے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ’’چوہے بلی کا کھیل‘‘ہو گیا۔ جب کہ ہمارے لیے یہ کھیل نہیں بڑا ایڈونچر ہوتاہے‘‘۔
’’اگر کھیل نہیں ہوتا تو مس مانو!تووہ کیا قصہ تھا جب ایک چوہے نے آپ سے کہاتھا :’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔یہ کیا کھیل کھیلا تھا آپ نے؟‘‘
’’منومیاں!یہ ہماری جنگی حکمت عملی تھی۔ہم نے ایک چوہے کو چمکار کر کہاآؤ ہم ’پکڑم پکڑائی‘ کھیلیں۔وہ ہمارے جھانسے میں آگیا۔پھر جیسے ہی موقع پا کر ہم نے اُس پر جھپٹّا مارا، وہ تیزی سے بھاگ کر اپنے بِل میں گھس گیا، مگر اُس کی دُم ہمارے ہاتھ میں رہ گئی۔ اب ہم نے دوسری چال چلی اور اُس سے کہا: ’چوہے میاں!ہم تو تمھارے ساتھ کھیل رہے تھے۔ تم خواہ مخواہ ڈر کر بھاگ گئے اور اپنی دُم بھی تُڑا بیٹھے۔باہر آؤ ہم تمھاری دُم جوڑ دیں۔ورنہ تم یوں لنڈورے (یعنی بغیر دُم کے) اچھے نہیں لگو گے‘۔لیکن چوہا ہماری چال سمجھ چکا تھا۔ کہنے لگا:’’بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘۔تو اگر کوئی شخص کسی کو پھانسنے کے لیے اُسے کسی فائدے کا جھانسا دے اور یہ چال اُس کی سمجھ میں آجائے تو یہ ضرب المثل ایسے ہی موقع پر استعمال کی جاتی ہے۔‘‘
’’مس مانو!ہم نے سنا ہے کہ ’’بلی کو خواب میں بھی چھیچھڑے نظرآتے ہیں‘‘۔چوہے کیوں نہیں نظرآتے؟‘‘
’’ارے بھئی منو میاں!خواب میں تو بہت ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ہمیں چھیچھڑے بھی بہت پسند ہیں۔اتنے پسند ہیں کہ خواب میں بھی نظر آجاتے ہیں۔مگر اِس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ جس کو جس چیز کی دُھن ہوتی ہے، اُس کو خواب میں بھی وہی چیز نظر آتی ہے‘‘۔
’’اچھا یہ بتائیے کہ لوگ ’بلی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی‘کروانے سے کیوں ڈرتے ہیں؟‘‘
’’ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔بات یہ ہے کہ چھیچھڑے کسی اور کے کام کے تو ہوتے نہیں۔ صرف ہماری من بھاتی غذا ہیں۔ اگر کوئی کسی بلی سے کہے کہ ذرا میرے یہ چھیچھڑے سنبھال کر رکھ لو تو وہ خود بے وقوفی کرے گا۔ کیوں کہ بلی تو چھیچھڑے کھائے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ لیکن آپ انسانوں نے یہ محاورہ اُن بے ایمان اور بد دیانت انسانوں کے لیے ایجاد کیا ہے، جنھیں اگر کچھ مال و دولت امانت رکھنے کے لیے دیا جائے تو وہ اُس میں ضرور خیانت کریں گے اور کھا جائیں گے۔ بلّیاں مفت میں بدنام ہوگئیں۔‘‘
’’ارے ہاں خوب یاد آیا۔ ہم نے سنا ہے کہ ایک بار آپ اونٹ کے گلے میں بھی لٹک گئی تھیں‘‘۔
’’لٹک نہیں گئی تھی، لٹکا دی گئی تھی۔یہ آپ انسانوں کا قصہ ہے۔ایک کنجوس میاں کا اونٹ گم ہو گیا۔ انھوں نے خوب ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ جب ملنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو انھوں نے منت مان لی کہ اگر وہ اونٹ مل گیا تو اس کو اونے پونے … فرض کیجیے ایک، دو روپے میں…بیچ دوں گا۔اتفاق سے گم شدہ اونٹ مل گیا۔اب تو وہ بہت پچھتائے،مگر منت پوری کرنا بھی ضروری تھا۔انھوں نے ایک ترکیب سوچی۔ اونٹ کے گلے میں ایک بلی باندھ دی اور اعلان کردیا کہ جو اونٹ خریدے گا اُسے یہ بلی بھی خریدنی پڑے گی۔ اونٹ کی قیمت تو ایک دو روپے ہی رکھی مگر بلی کی قیمت … فرض کیجیے کہ… پچاس ہزار روپے رکھ دی۔ایسے موقع پر جب کسی قیمتی چیز کے ساتھ کوئی کم قیمت چیز بھی گلے پڑ جائے اور کم قیمت چیز زیادہ مہنگے داموں پڑے تو کہتے ہیں کہ یہ تو ’’اونٹ کے گلے میں بلی‘‘ ہوگئی۔‘‘
’’چلیے اونٹ کی گردن میں تو آپ لٹک گئی تھیں یا لٹکا دی گئی تھیں،مگر آپ کو شیر کی خالہ کس خوشی میں کہا جاتا ہے؟ہم تو حیران ہو کر سوچتے رہتے ہیں کہ:
گر بلی شیر کی خالہ ہے
پھر ہم نے اسے کیوں پالاہے؟
کیا شیر بہت نالائق ہے
خالہ کو مار نکالا ہے
یا جنگل کے راجا کے ہاں
کیا ملتی دودھ ملائی نہیں؟
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
’’اور میری تو یہ بات سمجھ میں آئی نہیںکہ آخر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ میں تو شیر کی خالہ ہوں… آپ کی بہن شمی کی طرح کوئی شیطان کی خالہ تو نہیں ہوں،جو ہروقت میری دُم پکڑ کر کھینچتی رہتی ہے۔‘‘
’’ارے ارے … آپ تو ناراض ہوگئیں۔میں شمی کو سمجھا دوں گا کہ وہ آپ کی دُم پکڑ کر نہ کھینچا کرے۔اب وہ آپ کی دُم نہیں کھینچے گی۔ اگر وہ ایسا کرے تو آپ بے شک دُم دبا کر بھاگ جائیے گا۔مگر یہ بتائیے کہ کیا شیر واقعی آپ کا بھانجا ہے؟‘‘
’’منومیاں!آپ نے حیاتیات یا بیالوجی تو پڑھی ہوگی۔ مختلف جانور مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسے گائے، بیل، بھینس، نیل گائے وغیرہ ایک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔بکروں دنبوں وغیرہ کا اپنا الگ خاندان ہے۔ چھپکلی، گرگٹ، سانڈے، گوہ وغیرہ مل کر ایک خاندان بناتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا اور شیرمیاں کا خاندان ایک ہی ہے۔ہماری اور شیرنی کی پڑ نانی امّاں سگی بہنیں تھیں۔اِس طرح شیرنی ہماری بہن ہوئی اور شیر ہمارا بھانجا۔‘‘
’’آپ پر ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ’’بلی نے شیر کو سب کچھ سکھا دیا، مگر درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا‘‘ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں کچھ کچھ ٹھیک ہی ہے۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ شیر میاں غصے کے بڑے تیز ہیں۔ جب کسی کو غصہ آتا ہے تو اُسے چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہتی۔ اسی لیے غصہ حرام ہے۔ہم نے تو اُن کے بھلے کے لیے ہی درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا کہ ہڑبونگے تو ہیں ہی، کسی درخت سے گِر، گِرا گئے تو ہڈی وڈّی تڑوا بیٹھیں گے۔ ساری عمر کے لیے اپاہج اور معذور ہو کر بیٹھ رہیں گے۔ مگر لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں درخت پر چڑھنا اِس لیے نہیں سکھایا کہ جب اُن کو غصہ آئے تو ہم خوددرخت پر چڑھ کر اپنی جان بچاسکیں۔ لوگوں کی زبان کون پکڑسکتا ہے؟ یہ محاورہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی شاگرداپنے آپ کو اپنے استاد سے بڑھ کرثابت کرنے کی کوشش کرے، مگر اُسے اچانک معلوم ہو کہ ابھی تو وہ بہت سی باتوں میں اپنے استاد سے بہت پیچھے ہے۔‘‘
’’آپ خود تو اپنے آپ کو شیر کی خالہ کہتی ہیں، مگر ہماری ایک ضرب المثل یہ کہتی ہے کہ’’پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی‘‘تو کیا آپ بھی یہی کہتی ہیں کہ چلو میں بلی ہی سہی؟‘‘
’’ارے بھئی اِس ضرب المثل کے پیچھے تو ایک بڑے مزے کا قصہ ہے۔ ہوا یوں کہ کسی رات ایک صاحب کے گھر میں چور کودا۔’
کھڑ بڑ سڑ بڑ‘ کی آواز سن کر اُن کی آنکھ کھل گئی۔انھوں نے ڈانٹ کر پوچھا:’کون ہے؟‘
چور چالاک تھا۔ اُس نے ہماری آواز بنا کر کہا: ’میاؤں‘۔وہ صاحب سمجھے کہ بلی ہے، پھر سوگئے۔
جب پھر ’کھڑ بڑ سڑ بڑ‘ ہوئی تو وہ پھر جا گ اُٹھے اور پھر پوچھا:’کون ہے؟‘
چور نے پھر ہماری آواز نکالی،مگر اب انھوں نے سمجھ لیاکہ یہ بلی نہیں ہے، چور ہے۔
انھوںنے ’چور، چور‘ کا شور مچادیا۔ محلے والے بھی جاگ گئے، مگر چور اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھاگ گیا۔لوگوں نے بہت ڈھونڈا مگر کہیں نہ ملا۔ آخر محلے والوں نے کہا: ’چور نہیں ہوگا، بلی ہی ہوگی‘۔مگر جن صاحب کے گھر چور کودا تھا، انھوں نے تو چور کو خود دیکھا تھا۔ وہ کہنے لگے: ’نہیں، چور ہی تھا‘۔ لوگوں نے کہا: ’چور ہوتا تو پکڑا جاتا۔ بلی ہوگی، کہیں بھاگ گئی ہوگی‘۔جب سب لوگ یہی کہنے لگے تو گھر والے صاحب بولے: ’تھاتو چورہی لیکن…’’پنچ کہیں بلی تو بلی ہی سہی‘‘۔
اصل میں ’’پنچ‘‘ کہتے ہیں پانچ آدمیوں کو۔ اسی سے ’’پنچایت‘‘ بھی بنی ہے۔یعنی کم سے کم پانچ آدمیوںکی وہ کمیٹی جو لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ اِس کمیٹی کے صدر کو ’سر پنچ‘ کہا جاتا ہے۔جب کوئی شخص لوگوں کے سامنے اپنی بات ثابت نہ کرسکے، مگر اُسے یقین ہو کہ اُس کی بات صحیح ہے، تو ایسے موقع پر یہ ضرب المثل استعمال کرتے ہیں۔‘‘
’’واہ مس مانو!آپ نے تو ہماری معلومات میں سچ مچ بہت اضافہ کیا ہے۔اب یہ بتائیے کہ کیا ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘ بھی آپ ہی کے متعلق ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی!ہمیں فارسی میں ’’گُربہ‘‘ کہا جاتا ہے۔اگر کوئی انسان ہماری طرح کا سیدھا سادا، شریف اور غریب ہو تو اُس کو بھی ’’گربۂ مسکین‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ ’’کشتن‘‘ بھی فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’مار ڈالنا‘‘۔ اب رہا ’’روزِ اوّل‘‘ تو اس کا مطلب تو آپ کو آتا ہی ہوگا، ’’پہلا دن‘‘۔
یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔
دو دوست تھے۔ دونوں کی شادی ہوگئی۔ ایک کی بیوی بڑی فرماں بردار اور خدمت گزار تھی۔ اپنے شوہر کا ہر حکم فوراً بجا لاتی تھی۔ دوسرے کی بیوی بڑی منھ پھٹ،لڑاکا اور نافرمان تھی۔ہر وقت لڑتی جھگڑتی رہتی تھی۔ ایک روز دوسرے دوست نے پہلے دوست سے پوچھا:’دوست کیا بات ہے کہ تمھاری بیوی اتنی فرماں بردار ہے؟ میری بیوی تو بڑی نک چڑھی ہے۔‘
پہلے دوست نے جواب دیا:’دراصل میں نے شادی کے بعد پہلے ہی دن گھر میں بڑا غصہ کیا۔چیزیں اُٹھا کر پھینکیں۔ برتن توڑ پھوڑ ڈالے۔ ایک بلی سامنے آئی تو میں نے تلوار لے کر اُس کی گردن اُڑا دی۔یہ سب کچھ دیکھ کر میری بیوی سہم گئی اور مجھ سے ڈرنے لگی۔ بس وہ دن اور آج کادن، میں جو کچھ کہتا ہوں وہ پورا کرتی ہے۔‘
یہ قصہ سن کر دوسرے دوست کو بھی حوصلہ ہوا۔ اُس نے کہیں سے ایک بلی پکڑی اور گھر جاکر بہت اودھم مچایا۔ پھر تلوار اُٹھا کر لایا اور اُس بلی کی گردن اُڑادی۔ اُس کی بیوی پہلے تو یہ سارامنظر دیکھتی رہی۔ جب شوہر کا ڈراما ختم ہوا تو بیوی نے بیلن اُٹھایااور شوہر کی طرف لپکی۔
کہنے لگی:’آج تک تو تم بڑی شرافت سے رہتے تھے، آج یہ کیا اُٹھا پٹخ شروع کردی؟ اور اس غریب بلی نے کیا قصور کیا تھا جو اُس کی گردن اُڑا دی۔‘
یہ کہہ کر بیوی نے جو اُس کی دھنائی کی ہے تو وہ گھر سے بھاگا۔ بھاگ کر سیدھا اپنے اُسی دوست کے پاس گیا اوربتایا کہ میری بیوی نے تو میرا یہ حشر کر دیا۔
یہ قصہ سن کر اُس کا دوست ہنسا اور بولا: ’’گربہ کشتن روزِ اوّل‘‘۔ یعنی بلی کو پہلے ہی دن مارنا چاہیے تھا۔ اب مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔تو یوں ہماری دو بلّیاں جان سے گئیں اور آپ کے ہاتھ ایک محاورہ آگیا۔‘‘
’’ارے ارے مس مانو! آپ روئیں نہیں۔ یہ توصرف قصے کہانیاں ہیں۔ کوئی سچ مچ ایسا تھوڑا ہی ہوا ہوگا، اچھا وہ ایک لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگاکہ بلی نہلانے سے نہیں نچوڑنے سے مری ہے۔‘‘
’’بھئی باتیں تو بہت ساری ہیں، مگر ابھی ابھی میری نظر پڑی ہے، بالکنی پر سے ایک چوہاکود کر برابر والے کمرے میں گیا ہے۔ شاید وہ کم بخت چھپ چھپا کر ہماری باتیں سن رہا تھا۔ابھی اسے سبق سکھاتی ہوں۔‘‘
’’ارے بھئی سنیے… دومنٹ تو ٹھیریے… ارے چھوڑیے مس مانو!جانے دیجیے…‘‘
مگر مس مانو کہاں ماننے والی تھیں؟ایک چھلانگ اوپر کو لگا کر روشن دان تک پہنچیں اور دوسری چھلانگ نیچے کو لگا کر یہ جا وہ جا۔

٭…٭

sand Bag

ایک بورا مٹی

ساڑھے گیارہ سو برس پہلے کی بات ہے کہ اندلس پر بادشاہ حکم کی حکومت تھی۔ ایک روز دارالحکومت کے قریب بادشا ہ کو اپنے محل کی تعمیر کے لیے ایک ٹکڑا زمین بہت پسند آیا۔ یہ زمین ایک بوڑھی عورت کی ملکیت تھی، وہ عورت وہیں ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ بادشاہ نے اسے زمین کا مناسب معاوضہ پیش کرنا چاہا لیکن بڑھیا نے انکار کردیا۔ بادشاہ نے زمین کی دوگنی قیمت لگادی لیکن بڑھیا نہ مانی، بادشاہ کو بڑھیا کی جسارت پر سخت غصہ آیا اور اس نے اس کی زمین جبراً سرکاری تحویل میں لے لی اور وہاں ایک عالی شانِ محل تعمیر کرایا۔
کچھ عرصے بعد بادشاہ نے قاضی کو اپنا نیا محل دیکھنے کے لیے مدعو کیا۔ قاضی محل دیکھنے گیا اور اپنا ایک گدھا بھی لے گیا جس پر خالی بورے لدے ہوئے تھے۔ بادشاہ نے قاضی کو گدھے کے ساتھ آتے دیکھا تو سخت حیران ہوا لیکن خاموش رہا۔ قاضی نے بادشاہ سے درخواست کی: ’’جہاں پناہ! مجھے اس محل کے باغ سے مٹی کے کچھ بورے بھر لینے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔‘‘ بادشاہ اور زیادہ حیران ہوا، تاہم اس نے خوشی سے اجازت دے دی۔ قاضی نے باغ کی مٹی سے کچھ بورے بھرلیے اور بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ مٹی کا ایک بورا اٹھا کر گدھے پر لادنے میں اس کی مدد کریں۔ قاضی کی اس درخواست پر بادشاہ کو ہنسی آگئی اور اس نے مٹی کا بورا اٹھوانے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہ سکا۔
قاضی نے کہاـ: ’’جہاں پناہ! اگر آپ مٹی کا ایک بورا بھی نہیں اٹھا سکتے تو روز قیامت جب اللہ آپ کو حکم دے گا کہ وہ تما م زمین جو آپ نے زبردستی حاصل کی ہے اٹھا کر اس کے مالک کو واپس دیں تو آپ ساری زمین کو کیسے اٹھاسکیں گے؟‘‘۔
بادشاہ قاضی کی بات سن کر نادم ہوا۔ اس نے اسی وقت بڑھیا کو بلایا اور اس سے معافی مانگتے ہوئے کہا۔ ’’اماں! مجھے معاف کرو۔ آج سے یہ محل اور یہ باغ سب تمھارا ہے‘‘۔
قاضی بادشاہ کے اس اقدام سے بہت خوش ہوا۔

٭…٭

گرجو بتھوڑا

گِرچُوبہت خوش تھا۔آج اُس نے گھر کے لیے نئے پردے خریدنے شہر جانا تھا۔
وہ باقی مگر مچھوں کی نسبت زیادہ مہذب، صاف ستھرا اور خوش اخلاق تھا۔اُس کی یہ خوبی اُس کے گھر سے بھی جھلکتی تھی۔ندی کنارے صاف ستھراگھر، اجلے در و دیوار اور شیشے جیسے برتن۔
اپنے گھر کی طرح وہ خود کا بھی بہت خیال رکھاکرتا۔جب باقی مگر مچھ تالاب کے گدلے پانی میں ڈبکیاں مارتے ہوئے ہلا گلا کرتے، وہ مزے سے تالاب کنارے بیٹھ کر کہانیوں کی کتاب پڑھا کرتا۔
باقی مگر مچھ اکثر اُس کا دانت صاف کرنے پر بھی مذاق اڑایا کرتے۔اپنے سر کے برابر برش کو جب وہ ننھے ہاتھوں میں تھامے زور زور سے چونسٹھ دانتوں پر رگڑتاتو کھڑکی سے جھانکتے اُس کے دوست خوب ہنسی مذاق کرتے، مگر اُسے صاف رہنا پسند تھا۔ اُس کے دوست اکثر کہا کرتے:
’’آخر کو وہ ایک بتھوڑا ہے۔اتنی صفائی اور تمیز کا کیا فائدہ؟‘‘
’’بتھوڑا؟…وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
گِرچُو حیرت سے پوچھا کرتا۔
’’لو، تمھیں بتھوڑا ہو کر بتھوڑے کا نہیں پتا؟‘‘
ماگو مگر مچھ اور باقی سب زور زور سے ہنستے۔
’’نہیں پتاناں، تم بتائو!‘‘ وہ مزے سے پوچھتا۔
’’ارے بتھوڑا کہتے ہیں ایک خونخوار درندے کو، جو راتوں کو بچوں کے خوابوں میں آ کر ڈراتا ہے،جو بہت ڈرائونا، گندا مندااور بد صورت ہوتا ہے۔ ہم سبھی بتھوڑے ہیں…میں اور تم بھی!‘‘ وہ جواب میں حیرت سے پلکیں جھپکاتا۔یہ بات اُس کی سمجھ میں کبھی نہ آئی تھی۔
وہ جب بھی شیشہ دیکھا کرتا، ماگو کی بات اکثر سوچتا۔وہ بد صورت تو نہیں تھا، نہ ہی گندا مندا۔وہ تو روزانہ تالاب کے پانی سے منہ دھوتا، بال بناتا اور نئے کپڑے پہنتا۔نہ ہی وہ خونخوار درندہ یا ڈرانے والا جاندار تھا۔وہ تو خود رات کے اندھیرے میں تکیے کو سینے سے چپکا کر سویا کرتا۔اُس نے تو کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا تھا۔اسے تو بس پھول اور آئس کریم پسند تھی، پھر وہ بتھوڑا کیسے ہوا؟
’’میں بتھوڑا نہیں ہوں۔‘‘ اُس نے ایک روز ماگو مگر مچھ کو کہہ ہی دیا۔اُس روز وہ سب کانٹا ڈالے تالاب کنارے مچھلیاں پکڑ نے بیٹھے تھے۔ گِرچو سب کے لیے مزیدار کباب بنا کر لایا تھا۔
’’کیوں؟ …تم بتھوڑے کیوں نہیں ہو؟‘‘
ماگو نے کیچڑ میں لوٹنیاں لیتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’کیوں کہ میں بتھوڑے جیسا نہیں ہوں۔میں اچھا ہوں۔‘‘
گِرچُو قریب سے اڑکر جاتی ہوئی تتلی کو دیکھ کر مسکرایا۔
’’کوئی اپنی مرضی سے نہ بتھوڑا بن سکتا ہے۔نہ اپنی مرضی سے بتھوڑا ہونے سے انکار کر سکتا ہے…سمجھے؟‘‘
ماگو نے کیچڑ کے چھینٹے اڑائے۔
’’وہ کیوں؟‘‘ گرچو نے معصومیت سے پوچھا۔
’’کیوں کہ ہم پیدا ہی ایسے ہوئے ہیں۔سنا نہیں،سب ہم سے کتنا ڈرتے ہیں۔کبھی کسی نے کہا؟ یہ اچھا بتھوڑا ہے، اُس کے قریب جا سکتے ہیں۔سب ہم سے ڈرتے ہیں بچّو! ہم بتھوڑے ہیں، ڈرائونے، خونخوار اور بڑے سے بتھوڑے…!‘‘
ماگو نے زور زور سے ہنسا شروع کر دیا۔باقی سب نے بھی اُس کا ساتھ دیا۔
فضا ’’اَکھ…اَکھ…اَکھ…کھاں کھاں‘‘ کی آواز سے لرز گئی۔
’’نہیں تو…میں تو ایسا نہیں… مجھ سے کوئی نہیں ڈرے گا…میں اگر کسی کو تنگ نہیں کروں گا،صاف ستھرا رہوں گا،سب کو میٹھی گولیاں دوں گا تو کوئی مجھ سے کیوں ڈرے گا؟…پیدا ہوتے ہی کوئی بتھوڑا کیسے ہو سکتا ہے؟…بتھوڑا تو ہر کوئی اپنی مرضی سے بنتا ہے۔‘‘
گِرچو نے اپنی ننھی سی ٹوپی سر پر ٹکائی اور ایک ادا سے کہا۔
’’اچھا؟ تم سے کوئی نہیں ڈرتا…ٹھیک ہے بچّو!…تم نے کل گھر کے لیے نئے پردے لینے ہیں ناں… ذرا انسانوں میں جائو… پھر پتاچلے گا…کھی کھی کھی!!!‘‘
گاچو نے دانت نکالے اور طنزیہ ہنسی ہنسنے لگا۔

٭…٭

اور آج گِرچُوبہت خوش تھا۔آج اُس نے گھر کے لیے نئے پردے خریدنے شہر جانا تھا۔
اُس نے اپنا سفید کوٹ اور پتلون پہنی۔ خوب اچھی طرح ہاتھ منھ دھویا، دانت صاف کیے اورگنگناتا ہوا چل دیا۔
وہ بس اسٹاپ پر پہنچا ہی تھا کہ ایک بس آکر رکی۔
وہ مسکراتا ہوا جلدی سے بس میں سوار ہو گیا۔
بس میںجگہ بہت کم تھی۔اُسے ایک سیٹ کے پاس ہی باقی مسافروں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا۔
کسی نے اُس کی جانب نہ دیکھا۔لوگ اپنی اپنی باتوںمیں مصروف تھے۔کوئی اخبار منھ کو لگائے مگن تھا۔کسی نے موبائل فون میں سر دے رکھا تھا۔کوئی ساتھ والے کے کندھے پر سر رکھے اونگھ رہا تھا تو کوئی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے چنے کھانے میں مصروف تھا۔
اُسے دل ہی دل میں خوشی ہوئی۔
’’ماگو کی بات غلط تھی ناں!… اگر وہ بتھوڑا ہوتا تو لوگ اُس سے ڈرتے…مگر کسی نے کچھ نہیں کہا۔‘‘اُس نے سوچا۔
اچانک بس کو ایک زوردار جھٹکا لگا، اور ساتھ والی سیٹ پر لگی کیل اُس کی ٹانگ میں چبھ گئی۔
اُس کے منھ سے ایک دردناک چیخ بلند ہوئی۔
بس میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔
اور پھرساتھ والی سیٹ پر بیٹھی خاتون نے اُس کے تیز نوکیلے دانت دیکھتے ہوئے زوردار چیخ ماری۔اُس کے بعد تو جیسے بس میں بھونچال آ گیا ہو۔
ہر کوئی چیخ پکار کر رہا تھا۔
گِرچو نے بہت کوشش کی کہ انھیں بتا سکے کہ وہ دھاڑا نہیں تھا۔اسے تو بس کیل چبھی تھی، مگر جیسے ہی اُس نے بولنے کے لیے منھ کھولا۔اُس کے تیز نوکیلے چمکدار دانت دیکھ کر لوگ مزید زور سے چلائے۔انھیں لگا وہ اُن سب کو کچا چبانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
بس پھر کیا تھا…ہر طرف سے:
’’بتھوڑا…بتھوڑا!…بھاگوبھاگو…ارے بتھوڑا ہے… بھاگو…!‘‘
کی آوازیں آنے لگیں۔
’’مم…میں …بتھوڑا نہیں ہوں…میں تو…میں تو گِرچو ہوں…ندی کنارے میرا گھر ہے…مجھے آئس کریم پسند ہے…تمھیں بھی کھلائوں گا۔‘‘
گِرچو ایک ایک کو صفائی دینے کی کوشش کرنے لگا۔
مگر لوگ اُس کی بات خوف کے مارے ٹھیک سے سمجھ بھی نہ سکے،نھیں لگا وہ کہہ رہا ہے:
’’میں بتھوڑا ہوں۔میں تم کو مرچ لگا کر ندی کنارے گھر میں تمھاری آئس کریم بنا ئوں گا۔‘‘
لوگ چیخ رہے تھے، بھاگ رہے تھے، گرچو کو دھکے دے رہے تھے۔
اب گِرچو بہت تنگ آگیا۔بتھوڑا بتھوڑا کی رٹ سن سن کر اسے بھی غصہ آگیا۔آخر کب تک برداشت کرتا۔
’’گڑ ڑ ڑ ڑ …خڑ خڑ خڑ…‘‘ وہ زور سے دھاڑا۔
اُس کی دھاڑ بالکل بتھوڑے جیسی ہی تھی۔
سب مسافر اور زور سے چیخنے لگے۔
’’اف کتنا بھیانک بتھوڑا ہے۔‘‘ اسے کئی طرف سے آوازیں سنائی دیں۔
’’اللہ!دانت تو دیکھو… اتنے خونخوار… یہ تو درندہ ہے۔‘‘
کئی لوگ چلائے:’’یہ کتنا خوفناک اور بدصورت ہے۔یہ ضرور ہمیں کھا جائے گا۔‘‘
گِرچُو اب سب کی باتیں بت بنے سن رہا تھا۔
ڈرائیور نے بس ایک جھٹکے سے روکی اور لوگوں نے جلدی سے گِرچو کو بس سے باہر دھکیل دیا۔
وہ سڑک پار کرتے ہوئے قریب والے پارک میں آکر خاموشی سے بیٹھ گیا۔
اُس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ابھی صبح ہی تو اُس نے بال بنائے تھے،سب خراب ہو گئے تھے۔
’’انسان کتنے خوفناک اور ڈرائونے ہیں… بالکل بتھوڑے جیسے۔‘‘
اُس نے سوچا اوربنچ پر بیٹھتے ہوئے اداسی سے سر جھکا لیا۔
پارک اُس وقت خالی تھا۔اِس سے پہلے کہ اُسے کوئی دیکھ کر بتھوڑا بتھوڑا چلاتا، اُس نے بنچ پر پڑے اخبار کا خول سا بنایا اور دو آنکھوں کی جگہ بنا کر منھ پر پہن لیا۔
اب اُس نے پردے لینے کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
واپس گھر آتے ہوئے وہ بہت اداس اور خاموش تھا۔
اُس نے گھر آکر خود کوآئینے میں دیکھا۔
بکھرے بال، بڑی بڑی آنکھیں، چاند کی روشنی میں چمکتے تیز نوکیلے دانت اور گہری سبز رنگت، جیسے تالاب پر کائی اگی ہو۔
’’کیا واقعی وہ بتھوڑا ہے؟‘‘
اُس نے گاچوکے الفاظ یاد کیے۔
’’ہاں شاید وہ سچ ہی کہہ رہا تھا۔وہ بتھوڑا ہی پیدا ہوا تھا اور بتھوڑا ہی رہے گا۔‘‘
اُس نے سوچتے ہوئے ہاتھوں میں اپنا لمبا سا منھ چھپانے کی کوشش کی، مگر اُس کے ہاتھ کی انگلی کا ناخن اُس کی آنکھ میں جالگا۔
اُس نے آنکھ سہلاتے ہوئے سوچا۔وہ تو واقعی خطرناک درندہ ہی تھا۔کوئی بھی اُس کے قریب آئے گا تو اسے نقصان ہی ہوگا۔
’’ٹھیک ہے، ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔وہ اگر ایک بتھوڑا ہے تو بتھوڑا ہی بن کر رہے گا۔اُس سے پہلے کہ کوئی اسے بد صورت، گندا یا خونخوار کہتے ہوئے بھاگے، وہ اُسے پہلے ہی ڈرا کر خود سے بھگا دیا کرے گا۔‘‘
گِرچو کے چہرے کی معصومیت غصے میں بدل گئی۔
اُس نے قریب ہی گلدان میں پڑے پھولوں کو توڑ کر دور پھینک دیا۔
اگلے روز وہ پھر سے شہر گیا۔
اِس بار اُس نے جان بوجھ کر سر کے بال گنگھی نہیںکیے تھے، نہ منہ دھویاتھا اور نہ ہی اچھے کپڑے پہنے تھے۔
سب سے پہلے وہ مسافروں سے لدی خودکار ٹرین میں جاکر زور سے دھاڑا:
’’گڑ ڑ ڑ ڑ ڑ …کھا کھا کھا…!‘‘
سب لوگ زور زور سے چلانے لگے:
’’بتھوڑا بتھوڑا!… بچائو بچائو۔‘‘
سب لوگ ٹرین سے باہر بھاگ گئے۔
اُس روز اس نے مزے سے اکیلے بیٹھ کر سفر کیا۔حالاں کہ اتنے رش میں تو کھڑا ہونا بھی مشکل ہوتا تھا۔
اسٹیشن سے نکل کراُس نے آئس کریم والی دُکان کا رخ کیا اور جاتے ہی دکاندار کو بولا:
’’گڑ گڑ ڑ ڑ ڑ…میں ہوں بتھوڑا… بھاگو یہاں سے۔‘‘
دکاندار جو بسکٹ والی کون میں آئس کریم نکال رہا تھا۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الٹے پائوں بھاگا۔
گِرچُو نے ڈٹ کر آئس کریم کھائی۔آج تو اسے پیسے بھی نہیں دینے پڑے تھے۔
واپسی پر وہ اسی پارک میں گیا جہاں پچھلی بار لوگوں سے چھپنے کے لیے گیاتھا۔
اُس نے ایک ننھی بچی کو جھولا لیتے ہوئے دیکھا تو قریب جاتے ہی دھاڑا:
’’گڑ ڑ ڑ ڑ ڑ کھا کھا کھا…میں ہوں بتھوڑا…بھاگو!‘‘
بچی روتی ہوئی اٹھ کر بھاگ گئی۔
وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے دھپ سے جھولے پر بیٹھا اور اندر ہی اندر خوش ہوا۔پہلے تو اسے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
وہ جنگل واپس آیا تو دوستوں کے ساتھ تالاب پر گیا۔ اُس روز اس نے تالاب کنارے کتاب نہیںپڑھی، بلکہ تالاب کے گدلے پانی میں باقی دوستوں کے ساتھ ڈبکیاں لگاتا رہا۔
اُس نے کئی دن بتھوڑا بن کر گزارے۔اب نہ تو اُس کے گھر کی کیاری میں پھول کھل رہے تھے نہ ہی اُن پر تتلیاں آرہی تھیں۔
اُس نے مایوس ہوکر سوکھی کیاریوں کو دیکھا اور سوچا:
’’شاید بتھوڑے پھول نہیں اگا سکتے۔‘‘
اُس رات وہ پھر ایک بار خود کو شیشے میں دیکھ رہا تھا۔
گندا منھ، گندے دانت، گندے کپڑے اور مفت کی آئس کریم کھا کھا کر لٹکا موٹا پیٹ!
وہ تو واقعی بتھوڑا ہی تھا۔
اُس نے اداسی سے سرد آہ بھری اورتکیے کو زور سے جکڑ کر سو گیا۔
اگلی صبح اُسے شہر سے کچھ سودا لینے جانا تھا،مگر اس کی طبیعت کچھ کچھ خراب تھی۔
اُس نے لوگوں کو ڈرانے کا ارادہ ترک کردیا اور آنکھوں کی جگہ چھوڑ کر منھ کے گرد اخبار کا کاغذ لپیٹ لیا۔
جب وہ سودا لے چکا تو اُس پر کافی تھکن طاری ہو رہی تھی۔
اُس نے ایک دکان سے سینڈوچ خریدے اور اپنے پسندیدہ پارک میں بیٹھ کر کھانے لگا۔
اُسے بہت اچھا لگا۔تیز ٹھنڈی ہوا سے اُس کی طبیعت بہتر ہو رہی تھی۔ اچانک کہیں سے ایک فقیر آ کر اُس کے ساتھ والی بنچ پر بیٹھ گیا۔
’’کچھ کھانے کو ہے؟ صبح سے کچھ نہیں کھایا۔‘‘ وہ فقیر لاغر آوازمیں بولا۔
گِرچو نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے سینڈوچ اور ایک نظر اُس بوڑھے کو دیکھا۔ــ
’’کیا بتھوڑے اچھا کام کرتے ہیں؟ کسی کی مدد کرتے ہیں؟‘‘اُس نے سوچا۔
’’شاید نہیں۔بتھوڑے تو کھانا چھینتے ہیں، بانٹتے تھوڑی ہیں،اوربھلا وہ کیوں کھانا دے، اور ویسے بھی اسے تو اتنی بھوک لگ رہی تھی۔وہ تو خود ہی سینڈوچ کے دونوں حصے کھائے گا۔‘‘
ابھی وہ دل میں سوچ ہی رہا تھا کہ تیز ہوا نے اُس کے چہرے کا کاغذ اڑا دیا۔
اب یقینا وہ بوڑھا چیختے ہوئے بھاگنے والا تھا۔
مگر وہ نہیں بھاگا۔
گِرچو نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ اندھا تھا۔
’’بیٹا!کچھ کھانے کو ملے گا؟‘‘
فقیر نے اسی انداز میں اپنا سوال دہرایا۔
گِرچو نے خاموشی سے آدھا سینڈوچ فقیر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ فقیر جلدی جلدی سینڈوچ کھاتا گیا اور ساتھ ہی ساتھ گرچو کو دعائیں دیتا رہا۔
’’تم یقینا بہت ہی اچھے ہو۔تمھارا دل بھی بہت اچھا ہے۔تم ہمیشہ ایسے ہی رہنا۔دوسروں کی مدد کرنا۔انُ کا خیال رکھنا۔تم تو بہت رحم دل اور نیک ہو۔‘‘
اُس نے کہتے ہوئے منھ صاف کیا۔
’’ویسے تم ہو کون؟‘‘ اُس نے تجسس سے پوچھا۔
’’میں…میں…‘‘ گرچو کچھ سوچنے لگا،پھر اداسی سے بولا: ’’میںتو…ایک بتھوڑا ہوں۔‘‘
جواب میں فقیر زور زور سے ہنسنے لگا:
’’بتھوڑا ہونا کسی کا نام تھوڑی ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں بھوکا تھا… تو بھوکا ہونا میرا نام کیسے ہوا؟‘‘
’’مگر…مگر میں تو بتھوڑا ہی پیدا ہوا تھا۔‘‘ گرچو نے اداسی سے کہا۔
’’بتھوڑا تو ہر انسان اپنے کام سے بنتا ہے۔جیسے اگر میں ابھی تمھیں تکلیف دوں یاخوف کی وجہ بنوں تو میں بھی بتھوڑا ہوا۔‘‘فقیر پوپلے منھ سے ہنسا۔
’’چاہے کوئی بتھوڑے جیسا دِکھتا بھی ہو؟‘‘
گرچو فقیر کی بات سن کر حیران ہو رہا تھا۔
’’ہم کہاں پیدا ہوتے ہیں یا کیسے پیدا ہوتے ہیں، وہ ہمارے اختیار میں نہیں… مگر ہم کیا بنتے ہیں، وہ تو ہمارے ہاتھ میں ہے ناں۔
کچھ لوگ خوبصورت پیدا ہوتے ہیں اور بتھوڑے بن جاتے ہیں…اورکچھ لوگ بتھوڑے پیدا ہوتے ہیںاور خوبصورت بن جاتے ہیں، صرف اپنے برتائو اور حسنِ سلوک کی وجہ سے۔‘‘
فقیر نے ہاتھ کی ایک تھپکی گرچو کے کندھے پر دی اور لاٹھی ٹیکتا چل دیا۔
گرچو بنچ پر اکیلا بیٹھارہا۔
’’تو کیا میں بتھوڑا نہیں؟…فقیر انکل نے کہا کہ ہم اپنے کام سے بتھوڑے بنتے ہیں، شکل یا نسل سے نہیں۔‘‘
وہ کافی دیر بیٹھا سوچتا رہا۔
اُس نے سینڈوچ کے بچے کھچے ذرے قریب ہی منڈلاتے ایک پرندے کو دیے۔
وہ گرچو کے ہاتھ پر بیٹھ کر مزے سے کھانے لگا۔
سورج کی غروب ہوتی کرنوں سے گرچو کی آنکھیں چمک اٹھیں۔’’ہاں!…میں بتھوڑا نہیں ہوں۔‘‘ اُس نے خود سے سرگوشی کی۔
وہ یہ کہتے ہوئے اٹھا اور قریبی تالاب کے صاف پانی سے منھ دھویا۔
اُسے تالاب میں ایک اچھے، نیک دل مگر مچھ کا عکس نظر آیا…کسی بتھوڑے کا نہیں!
اگلے روز اُس نے جم کر گھر کی صفائی کی۔پودوں کو پانی دیا، دیواروں اور برتنوں سے گرد جاڑی۔منھ اور دانت اچھی طرح صاف کیے اور احتیاط سے تہہ کی ہوئی پتلون اور کرتا پہن لیا۔
اب اُس نے جلدی جلدی مزیدار چاکلیٹوں اور ٹافیوں سے پتلون کی جیب بھری اور درجن بھر غبارے خریدکر بس اسٹاپ جا پہنچا۔
بس رکی تو گرچو نے مزے سے گاتے ہوئے سب بچوں میں رنگ برنگے غبارے بانٹے۔سب لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
اُس نے جب ٹافیاں بانٹتے ہوئے ایک ننھی سی بچی کے سر پر پیار کیا تو وہ ماں کی گود سے نکل کر گرچو کو چمٹ گئی۔
’’پیارے انکل!آپ نے مجھے ٹافیاں دیں…آپ کا نام کیا ہے؟‘‘
’’مم…میرا نام… بتھ… بتھ…‘‘گرچو پہلے گڑبڑا گیا، پھر مزاحیہ شکلیں بناتے ہوئے لہک لہک کر گنگنانے لگا:
’’نام ہے میرا
گرچو بتھوڑا
گرچو بتھوڑا
سر مراجیسے
کوئی ہتھوڑا
کوئی ہتھوڑا…!‘‘
بچی کھکھلا کر ہنس دی۔
بس میں گرچو کی وجہ سے اِس بار بھی شور بلند ہو ا تھا،مگر اِس بار وہ شور ہنسی کا تھا۔
سب مسافر ہنستے ہنستے دوہرے ہورہے تھے۔
ایسا مزاحیہ بتھوڑا انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا…!

٭…٭

گھوڑا ہو تو ایسا

میں گائوں میں رہتا تھا اور اسکول میرے گھر سے چار میل دور تھا۔بس یا تانگے پر جانے کے لیے میرے پاس پیسے نہ تھے البتہ گھر میں درمیانہ قد کا ایک گھوڑا تھا۔میں اسی پر سوار ہوکر اسکول جاتا اور اسے وہیں باندھ کر جماعت میں چلا جاتا، وقفے کے دوران میں گھوڑے کے آگے چارہ ڈال دیتا تھا اور اسے تھپک کر دوبارہ پڑھنے چلا جاتا تھا۔
ایک روز جو میں اسے چارہ دینے نکلا تو دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔
جماعت میں آیا تو پتا چلا کہ دو شریر لڑکے بھی لاپتا ہیں۔مجھے یقین ہوگیا کہ وہ دونوں میرے گھوڑے کی سواری گانٹھ رہے ہیں۔آخر چھٹی کا وقت ہوگیا اور لڑکے نہیں آئے، البتہ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ گھوڑا وہیں کھڑا ہے جہاں میں اسے ہر روز باندھا کرتا تھا۔بالکل یوں لگا جیسے وہ کھڑا میرا انتظار کر رہا ہو۔
میں خاموشی سے گھر آگیا۔اگلے روز اسکول میں وہی دونوں لڑکے ملے۔دونوں بہت شرمندہ تھے۔میرے پاس آکر کہنے لگے کہ کل ہم تمھارا گھوڑا لے کر دریا کی سیر کو چلے گئے تھے۔گھوڑا ہمیں سیر کراتا رہا لیکن جوں ہی اسکول کی چھٹی کا وقت قریب آیا گھوڑا اَڑ گیا اور اس نے آگے جانے سے انکار کردیا۔مجبوراً ہمیں اترنا پڑا۔ہمارا اترنا تھا کہ گھوڑے نے واپس اسکول کی طرف دوڑ لگادی اور جب ہم چھے میل پیدل چلتے اور مرتے کھپتے واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ گھوڑا عین چھٹی کے وقت آیا اور تمھیں لے کر گھر چلا گیا۔
یہ قصہ سنا کر دونوں لڑکوں نے مجھ سے معافی مانگی۔
میں نے ہنس کر کہا کہ معافی مانگنی ہی ہے تو مجھ سے نہیں، گھوڑے سے مانگو۔
دونوں لڑکوں نے گھوڑے کی گردن میں بانہیں ڈال دیں۔اُس کے بعد سے پکے دوست ہوگئے ہم تینوں،نہیں،ہم چاروں۔

٭…٭

بابا گوشی

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔دور ایک بہت بڑے جنگل میں ایک بہت بوڑھاخرگوش رہتا تھا۔سب جنگل والے اُسے بابا گوشی کے نام سے پکارتے تھے۔بابا گوشی کی عمر پچاس سال ہوگئی تھی۔اُس کے سب رشتے دار وفات پا چکے تھے۔دس سال پہلے اُس کی بیوی بھی ایک’’بھیڑیے‘‘ کو پیاری ہوگئی تھی۔یوں اب وہ اپنے گھر میں بالکل اکیلا زندگی کے آخری دن گن رہا تھا۔
بابا گوشی بہت کمزوراور غریب تھا۔ اُس کے پڑوسی بہت اچھے اور نیک دل تھے جو اُس کی خدمت کر دیا کرتے تھے،خاص طور پر اُس کی پڑوسن ٹینا گلہری اور موٹا بھالو تو بہت ہی اچھے تھے۔اُس کا بہت خیال رکھتے تھے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔آج صبح ہی سے بابا گوشی کی طبیعت بہت خراب تھی۔ کچھ دن پہلے ہی بندر خبردارکے ذریعے جنگل کے جانوروں کو معلوم ہوا تھا کہ شہر وں میں سانس کی ایک بیماری ’’کورونا‘‘ پھیل رہی ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔
تب سے جنگل کے سب جانوربہت پریشان ہوگئے تھے اور سب نے احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر رکھا تھا۔
بابا گوشی بھی ماسک لگائے رہتا تھا،مگر آج صبح سے ہی اسے ہلکا ہلکا بخار اور کھانسی ہورہی تھی۔آج موسم بھی بہت خراب تھا۔آج صبح بابا گوشی نے ریڈیو پر سنا تھا کہ آج شام میں زبردست طوفان آئے گا۔مگرطوفان کو شاید بہت جلدی تھی، وہ شام سے پہلے دوپہر ہی میں آگیا۔
تیز ہواؤں سے پورے جنگل میں بھونچال سا آگیا۔ درختوں سے تیز ہوائیں ٹکراٹکرا کر خوفناک آوازیں پیدا کر رہی تھیں، جن سے ننھے منے جانوروں کے دل دہل رہے تھے۔
طوفان کی شدت کے ساتھ ساتھ بابا گوشی کی کھانسی میں بھی شدت آرہی تھی۔ اب اسے رہ رہ کر کھانسی کا دورہ پڑ رہا تھا اور وہ کھانس کھانس کر بے حال ہو رہا تھا:
’’کھوں کھوں کھوں… کھوں کھوں کھوں…ہائے کیا کروں؟‘‘بابا گوشی بے چارہ چِلاّ اُٹھا۔
’’ہائے…اُف…ڈاکٹر اُلّو نے بتایا تھا کہ اِس نامراد وبا میں بہت کھانسی ہوتی ہے… اُس کے لیے جنگل میں جھیل کنارے جو گھاس اگتی ہے…اُس کا قہوہ پینے سے… کھانسی اور بخار صحیح ہو جاتا ہے… ہائے مگر مجھ بڈھے کو وہ کون لا کر دے گا… ہائے!‘‘
وہ رونے لگا۔
پھر وہ ہمت کر کے اُٹھا۔اپنی لاٹھی اٹھائی اور کھانستے کھانستے باہر کی طرف چل پڑا۔
دروازہ کھولتے ہی تیز ہوا سے وہ ہل کر رہ گیا۔آندھی چل رہی تھی۔ پورا محلہ سنسان اورگلی ویران پڑی تھی۔ بیماری کے ڈر اور طوفان کی وجہ سے سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔بابا گوشی بھی بہت ڈرا ہوا تھامگر مرتا کیا نہ کرتا، ہمت کر کے وہ آگے بڑھا… مگر ابھی وہ دو چار قدم چل کر ٹینا گلہری کے دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ تیز ہوا سے اُس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ گر پڑا۔اُس کے حلق سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔
’’کیا ہوا؟… بابا گوشی کیا ہوا؟‘‘ یہ ٹینا گلہری کی آواز تھی، بابا گوشی کی آواز سن کر باہر آئی تھی۔
بابا گوشی نے ہانپتے ہوئے اسے ساری بات بتائی۔
’’بابا گوشی!… آپ بالکل پریشان نہ ہوں… میں موٹے بھالو کے ساتھ جاکر وہ گھاس لے آؤں گی، آپ گھر پر آرام کریں۔‘‘
اُس نے بابا گوشی کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا اور واپس اُن کے گھر لے جا کر اُن کے پلنگ تک پہنچایا۔
پھر وہ تیزی سے دروازہ بند کرکے باہر نکلی اور دو گھر چھوڑ کر موٹے بھالو کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانے لگی۔
موٹا بھالو اِس وقت شہد پی رہا تھا، دستک کی آواز سن کر پریشان ہوگیا۔
اُس نے دروازہ کھولا توسامنے ٹینا گلہری تھی۔
ٹینا نے موٹے بھالو کو جلدی جلدی ساری بات بتائی تو موٹا بھالو فورا ًمدد کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
بس پھر کیا تھا…
ٹینا گلہری موٹے بھالو کے کندھے پر بیٹھ گئی اور موٹے بھالو نے اللہ کا نام لے کر جھیل کی طرف دوڑ لگا دی۔
شدید طوفانی ہواؤں اوربارش کا مقابلہ کرتے ہوئے دونوںجھیل کے پاس جنگلی گھاس تک پہنچ گئے۔اُنھوں نے گھاس کے تنکے توڑے اور واپسی کے لیے مڑ گئے۔
طوفان سے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔کئی درخت تو اُن کے سامنے ہوا سے گرے بھی، مگر وہ حفاظت کی دعا پڑھتے بچتے بچاتے واپس اپنے محلے پہنچ ہی گئے۔
بابا گوشی کے گھر سے زور زور سے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔
موٹا بھالو تو بابا کے گھر میں نہیں آ سکتا تھا، اُس نے ٹینا گلہری کو بابا کے دروازے پر اتارا اور خود باہر بیٹھ گیا۔
ٹینا گلہری تیزی سے اندر گئی۔بابا کو تسلی دی اورجلدی سے ایک کونے پربنی ہوئی انگیٹھی میں کوئلوں کو دہکانے لگی، کوئلوں نے آگ پکڑی تو اس ن ے چولھے پر ایک پتیلی میں گھاس کے تنکے اور پانی ڈال کر چڑھا دیا۔پھر اس نے دروازہ کھول کر موٹے بھالو کو تھوڑا شہد لانے کو کہا۔
موٹا بھالو بھاگ کر اپنے گھر سے شہد لے آیا۔
ٹینا گلہری نے تھوڑا سا شہد گھاس والے پانی میں ڈالااور تھوڑا شہد ڈال کر بابا گوشی کے لیے گاجر کا حلوہ بنا لیا۔گاجریں بابا کے گھر میں کافی ساری تھیں۔
جھیل والی گھاس کی عجیب خاصیت تھی کہ جیسے ہی پانی میں جاتی تھی، پانی نیلا ہو جاتا تھا۔
تھوڑی دیر میں نیلا نیلا پانی ابلنے لگا تو ٹینا نے جلدی سے اسے چھانا اور بابا گوشی کو ایک پیالے میں نکال کر پلانے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں بابا گوشی کی طبیعت بہت سنبھل چکی تھی۔وہ اب بہت سکون میں تھے۔
کھانسی میں فورا ًآرام آگیا تھا۔
اب ٹینا گلہری نے انھیں نرم نرم گاجر کا حلوہ نکال کر دیا، کیوں کہ بابا کے لیے اِس عمر میں ثابت گاجریں کھانا بہت مشکل ہوتا تھا، پھر اب وہ بیمار بھی تھے۔
حلوہ کھا کر بابا گوشی نے نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ٹینا اور موٹے بھالو کو دعائیں دینا شروع کردیں۔
ٹینامسکرائی ،انھیں کمبل اوڑھایا اور صبح آنے کا کہہ کر باہر چلی گئی۔ موٹا بھالو ابھی تک باہر بیٹھا تھا۔
ٹینا نے اسے بابا کی حالت کا بتایا تو وہ بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

٭…٭

Chalak Sardar

چالاک سردار حیران رہ گیا

اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔احمد، فاطمہ اور زینب چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی نانی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ احمد کو اپنی نانی اماں بہت اچھی لگتی تھیں۔وہ ہر وقت مسکراتی رہتیں، بچوں سے پیار کرتیں اور انھیں بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں۔
اُس روز ماموں جان دفتر سے آئے تو بچوں کے لیے بہت ساری مونگ پھلیاں اور گزک لے کر آئے۔رات کے کھانے کے بعد نانی اماں عشا کی نماز پڑھ کر اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔تینوں بچے مونگ پھلیاں اور گزک لے کر اُن کے پاس آگئے۔احمد نے کہا:
’’نانی اماں!کہانی سنائیں!‘‘
نانی اماں نے تینوں بچوں کو اپنے کمبل میں لے لیا۔پہلے تو اُنھوں نے زینب سے کہا:
’’زینب بیٹا!ایک ٹوکری لے آؤ اورتم تینوں مونگ پھلی کے چھلکے اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے ٹوکری میں ڈالتے جاؤ۔‘‘
زینب جلدی سے ٹوکری لے آئی۔ نانی اماں نے اُسے شاباش دی اور کہانی شروع کی۔
’’آج میں تم کو ایک چالاک سردار کی کہانی سناؤں گی۔ اُس کا نام ہُرمُزان تھا۔ہُرمُزان ایرانیوں کے ایک فوجی لشکر کا سردار تھا۔اُس زمانے میں ایران کے لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو اپنا خدا سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی ہُرمُزان سے کئی جنگیں ہوئیں۔ ہر جنگ میں وہ ہار جاتا۔ ہار کر میدان سے بھاگ جاتا۔ایک جنگ میں ہار کر اُس نے مسلمانوں سے صلح بھی کر لی۔ صلح کرکے اُس نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ کر لیا۔‘‘
’’جِزیہ کیا ہوتا ہے نانی اماں؟‘‘
فاطمہ نے نانی اماں سے پوچھا۔ نانی اماں نے فاطمہ کے منھ پر سے گزک کا ٹکڑا صاف کرتے ہوئے اُسے بتایا:
’’بیٹا!اسلامی حکومت، غیر مسلموں سے اُن کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے بدلے جو ٹیکس لیتی ہے، اُسے جِزیہ کہتے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر نانی اماں نے کہانی پھر وہیں سے شروع کی، جہاںسے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
’’ہاں … تو ہُرمُزان نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ تو کر لیا، مگر وعدہ پورا نہیں کیا۔ دھوکا دیا۔اُس نے دو مرتبہ ایسا کیا۔ تیسری بار وہ ایران کے ایک شہر تستر میں جا کر ایک قلعے میں بند ہوگیا۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک پیارے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تستر پر حملہ کیا اور شہر فتح کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔ہُرمُزان نے ایک بار پھر ہتھیار ڈال دیے،مگر اِس بار اُس نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنی یہ شرط منوائی کہ اُسے ہتھیار ڈالنے کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اُس وقت مسلمانوں کے سربراہ یعنی امیرالمومنین تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ نے اُس سے وعدہ کر لیا اور یہ وعدہ پورا کیا…‘‘
’’نانی اماں!مسلمانوں نے ایسے دھوکے باز آدمی سے وعدہ کیوں پورا کیا؟ مسلمانوں کو بھی بدلے میں اُسے دھوکا دینا چاہیے تھا۔‘‘ احمد نے نانی اماں کی بات کاٹ کر بڑے غصے سے کہا۔ نانی اماں نے اُسے پیار کیا اور کہا:
’’توبہ توبہ … نہیں بیٹا!ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔مسلمان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے، اُس کا کوئی دین ایمان ہی نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔‘‘
زینب نے کہا: ’’نانی اماں!بھائی کی بات چھوڑیں۔ آپ آگے کہانی سنائیں۔‘‘
نانی اماں نے کہا: ’’ہُرمُزان جب مدینہ پہنچا تو اُس نے اپنے سر پر تاج رکھا ہوا تھا۔سونے کے دھاگوں سے سلے ہوئے ریشمی کپڑے ’’دِیبا‘‘ کی قبا پہنے ہوئے تھا۔بہت سارے ہیرے جواہرات اورزیورات بھی گلے میں ڈال رکھے تھے۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اُس وقت مسجد نبوی کے فرش پر اکیلے لیٹے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر کے عمامے کا تکیہ بنایا ہوا تھا۔
ہُرمُزان کو امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہُرمُزان ہے۔یہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
امیر المومنین نے فرمایا:’’جب تک یہ اپنے اس لباس میں رہے گا، میں اُس سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
ہُرمُزان جب اپنے کپڑے تبدیل کرکے عام لباس میں آیا تو امیرالمومنین نے اُس سے پوچھا:’’تو بار بار بدعہدی (یعنی وعدہ خلافی) کیوں کرتا رہا؟ تیرے پاس کیا جواب ہے؟‘‘
ہُرمُزان نے کہا: ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ میرا جواب سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: ’’ڈرو مت۔ تمھارا جواب ضرور سناجائے گا۔‘‘
پھر ہُرمُزان نے پانی مانگا۔ پانی آیا تو اُس نے پیالہ ہاتھ میں لے کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا اور کہنے لگا:
’’مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت ہی میں قتل نہ کردیں۔‘‘
امیر المومنین نے فرمایا: ’’تم خوف نہ کھاؤ۔ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر اُس نے پیالہ زمین پر پٹخ کر توڑ دیا اور کہا:
’’اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اب تو یہ پانی زمین میں مل چکا ہے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ہُرمُزان کے چالاکی دکھانے اور دھوکا دینے پر بہت غصہ آیا،لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’ہُرمُزان!تونے مجھے دھوکا دیاہے، لیکن میں تجھے دھوکا نہیں دوں گا۔اسلام نے ہمیں اُس کی تعلیم نہیں دی۔ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘‘
یہ بات سن کر چالاک سردار حیران رہ گیا۔
وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اِس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوہزار درہم سالانہ اُس کی تنخواہ مقرر کر دی اور وہ مدینہ منورہ میں ہی رہنے لگا۔‘‘
کہانی ختم کرکے نانی اماں نے بچوں سے کہا:
’’اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی، جب کسی سے کوئی وعدہ کریں تو اُسے ہر حال میں پورا کریں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ یہی مسلمان کی شان ہے۔‘‘


٭…٭