کیا گدھا بے وقوف جانور ہے؟

گدھا بے چارہ ویسے ہی بدنام ہے۔یہ وہ جانور ہے ، جسے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی سواری ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بیوی بچوں سمیت مدین سے مصر تک کا سفر اسی جانور پر کیا۔اس کی آواز تمام جانوروں میں بری ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ اپنی آواز دھیمی رکھنا کیوں کہ بد ترین آواز گدھے کی ہوتی ہے۔

حلیہ:
گدھے کا رنگ خاکستری اور دُم گھوڑے سے چھوٹی ہوتی ہے۔ گدھے گھاس چرتے ہیں ۔
گھوڑے کے مقابلے میں گدھا باربرداری (بوجھ اُٹھا کر چلنے) کے لیے زیادہ موزوں جانور ہے۔
ایسے تنگ اور دشوار گزار راستے جہاں دوسرے جانور جانے سے خوف کھاتے ہوں، گدھا مزے سے چلتا ہے۔
گدھا کس کام کا:
زمانہ قدیم ہی سے یہ جانور باربرداری کے کام آتا ہے ۔ مصریوں نے ۳۰۰۰قبل مسیح میں اُس کی مدد سے شاندار اور بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کیں ۔
گدھا سیدھا سادہ جانور ہے اور کبھی بوجھ اُٹھانے یاکام کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ اِس وجہ سے بے وقوف مشہور ہو گیا ہے۔اِس گدھے پن اور بے وقوفی کے باوجود انسان کا مشکل ترین کام گدھا ہی کرتا ہے ۔ صبر کرنے میں اُس کا جواب نہیں۔ ۲۵سے ۴۰سال تک زندہ رہتا ہے۔
باربرداری کے علاوہ چکی پیستا ہے ، پانی بھر کے لاتا ہے، بعض جگہ رہٹ چلاتا ہے۔
بادشاہوں نے بھی گدھے پر سواری کی ہے۔ پرانے زمانے میں امن کے مشن پر جانا ہوتا تھا تو گدھے کو استعمال کرتے تھے ، جب کہ گھڑسواری جنگ کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں گدھے پر سوار داخل ہوئے تھے۔
گدھوں کی اقسام:
خچر باربرداری اور سواری کے کام بھی آتا ہے۔ ا مریکا میں ٹریکٹر سے پہلے خچر ہی ہل جوتنے کے کام آتا تھا۔پالتو گدھے اور خچر کے علاوہ جنگلی گدھے بھی ہوتے ہیں۔ ایشیائی جنگلی گدھا پاکستان میں عام تھا ،یہاں تک کہ بہاولپور کے نواب نے جنگ کے دوران میں ایک صحرائی مہم میں سیکڑوں جنگلی گدھے شکار کر کے اپنی فوج کا پیٹ بھرا۔
یہ ایران، افغانستان، بلوچستان اور سندھ میں رَن کچھ میں عام ملتا تھا ۔ یہ پالتوگدھے سے خوبصورت، سُرخی مائل سفید ٹانگوں والا جانور ہے ۔ کان چھوٹے ہوتے ہیں اور ٹانگوں کے اوپر کے حصے پر دھاریاںنہیں ہوتی۔ سر بڑا اور تھوتھنی گولائی میں ہوتی ہے۔ ایال پر (یعنی گردن کے اوپری حصے پر) بال سخت ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے رَن کچھ کے اب یہ تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ لوگ جیپ میں بیٹھ کر اُس کا شکار کرتے رہے اور یہ سوچ کر کہ یہ فصلوں کو خراب کرتا ہے ۔ اُس کا شکار کرنا اچھا سمجھتے تھے۔
گدھوں کے باپ دادا:
افریقا کے صومالی جنگلی گدھے شاید پالتو گدھے کے آباواجداد تھے۔ پاکستان کے جنگلی گدھے کے مقابلے میں اُس کے کان لمبے اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ رنگ سلیٹی ہوتا ہے ۔ آنکھوں کے گرد سفید حلقے ہوتے ہیں اور کمر اور بازو پر کالی دھاری ہوتی ہے ۔ الجزائر کا جنگلی گدھا ختم ہو چکا ہے لیکن سوڈان، صومالیہ اور بحر احمر کا جنگلی گدھا محدود تعداد میں اب بھی ملتا ہے ۔ اُس کے علاوہ صحراے گوبی میں منگولی جنگلی گدھا اور اس سے ملتا جلتا تبت میں پایا جاتا ہے ۔

گدھا پاکستان میں
گدھاگاڑی پاکستان میں بہت مقبول ہے ۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں تنگ اور گنجان علاقوں میں جہاں ٹرک وغیرہ نہیں جا سکتے، گدھا گاڑی کار آمد ہے ۔
کراچی میں چھوٹی نسل کے گدھے سڑک پر گدھا گاڑی کو سر پٹ دوڑاتے ہیں۔ کراچی میں گدھا گاڑی کی باقاعدہ دوڑ ہوتی ہے۔ پشاورجیسے شہر میں پرانا رواج ہے کہ گدھے پر سبزی اور پھل بیچتے ہیں۔ یہ چلتا پھرتا بازار ہے، نہ دکان کی ضرورت نہ کسی اور چیز کاغم۔ پاکستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بلندی پر سامان پہنچانے کے لیے گدھا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

٭…٭

Birds Beak

اتنی ساری چونچیں

حیران نہ ہوں… یہ قسم قسم کی چونچیں اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی غذا کے اعتبار سے بنائی ہیں۔ دنیا میں پرندوں کی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ تمام پرندے اپنی خوراک، آب و ہوا اور رہائش کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی جسامت کے ساتھ ساتھ اُن کی چونچ بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے۔
اِس طرح کی چونچ اُن پرندوں کی ہوتی ہے جو بیج وغیرہ کو کُوٹ کُوٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ یہ چونچ بناوٹ کے اعتبار سے موٹی ہوتی ہے۔
یہ پتلی اور نوکیلی چونچ مختلف کیڑے مکوڑے کھانے میں مدد کرتی ہے۔ نلکی (اسٹرا) کی مانند یہ چونچ ان پرندوں کی ہوتی ہے جو پھولوں سے رس چوستے ہیں یا کیچڑ میں سے کیڑے نکال کر کھاتے ہیں۔
یہ چونچ سب سے تیز اور خطرناک ہوتی ہے جو گوشت خور پرندوں میں پائی جاتی ہے اور گوشت کو نوچنے میں مدد دیتی ہے۔
وہ پرندے جو عام طور پر پانی میں یا ندیوں کے قریب رہتے ہیں اور مچھلیاں کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اُن کی اس طرح کی چوڑی اور چپٹی چونچ ہوتی ہے۔
اِس قسم کی چونچ درخت میں سوراخ کرکے کیڑے مکوڑے کھانے والے پرندوں کی ہوتی ہے۔ یہ بہت مضبوط اور نوکیلی ہوتی ہے۔

٭…٭

بابا گوشی

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔دور ایک بہت بڑے جنگل میں ایک بہت بوڑھاخرگوش رہتا تھا۔سب جنگل والے اُسے بابا گوشی کے نام سے پکارتے تھے۔بابا گوشی کی عمر پچاس سال ہوگئی تھی۔اُس کے سب رشتے دار وفات پا چکے تھے۔دس سال پہلے اُس کی بیوی بھی ایک’’بھیڑیے‘‘ کو پیاری ہوگئی تھی۔یوں اب وہ اپنے گھر میں بالکل اکیلا زندگی کے آخری دن گن رہا تھا۔
بابا گوشی بہت کمزوراور غریب تھا۔ اُس کے پڑوسی بہت اچھے اور نیک دل تھے جو اُس کی خدمت کر دیا کرتے تھے،خاص طور پر اُس کی پڑوسن ٹینا گلہری اور موٹا بھالو تو بہت ہی اچھے تھے۔اُس کا بہت خیال رکھتے تھے۔
وہ اتوار کا دن تھا۔آج صبح ہی سے بابا گوشی کی طبیعت بہت خراب تھی۔ کچھ دن پہلے ہی بندر خبردارکے ذریعے جنگل کے جانوروں کو معلوم ہوا تھا کہ شہر وں میں سانس کی ایک بیماری ’’کورونا‘‘ پھیل رہی ہے، جو ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔
تب سے جنگل کے سب جانوربہت پریشان ہوگئے تھے اور سب نے احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر رکھا تھا۔
بابا گوشی بھی ماسک لگائے رہتا تھا،مگر آج صبح سے ہی اسے ہلکا ہلکا بخار اور کھانسی ہورہی تھی۔آج موسم بھی بہت خراب تھا۔آج صبح بابا گوشی نے ریڈیو پر سنا تھا کہ آج شام میں زبردست طوفان آئے گا۔مگرطوفان کو شاید بہت جلدی تھی، وہ شام سے پہلے دوپہر ہی میں آگیا۔
تیز ہواؤں سے پورے جنگل میں بھونچال سا آگیا۔ درختوں سے تیز ہوائیں ٹکراٹکرا کر خوفناک آوازیں پیدا کر رہی تھیں، جن سے ننھے منے جانوروں کے دل دہل رہے تھے۔
طوفان کی شدت کے ساتھ ساتھ بابا گوشی کی کھانسی میں بھی شدت آرہی تھی۔ اب اسے رہ رہ کر کھانسی کا دورہ پڑ رہا تھا اور وہ کھانس کھانس کر بے حال ہو رہا تھا:
’’کھوں کھوں کھوں… کھوں کھوں کھوں…ہائے کیا کروں؟‘‘بابا گوشی بے چارہ چِلاّ اُٹھا۔
’’ہائے…اُف…ڈاکٹر اُلّو نے بتایا تھا کہ اِس نامراد وبا میں بہت کھانسی ہوتی ہے… اُس کے لیے جنگل میں جھیل کنارے جو گھاس اگتی ہے…اُس کا قہوہ پینے سے… کھانسی اور بخار صحیح ہو جاتا ہے… ہائے مگر مجھ بڈھے کو وہ کون لا کر دے گا… ہائے!‘‘
وہ رونے لگا۔
پھر وہ ہمت کر کے اُٹھا۔اپنی لاٹھی اٹھائی اور کھانستے کھانستے باہر کی طرف چل پڑا۔
دروازہ کھولتے ہی تیز ہوا سے وہ ہل کر رہ گیا۔آندھی چل رہی تھی۔ پورا محلہ سنسان اورگلی ویران پڑی تھی۔ بیماری کے ڈر اور طوفان کی وجہ سے سب جانور اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔بابا گوشی بھی بہت ڈرا ہوا تھامگر مرتا کیا نہ کرتا، ہمت کر کے وہ آگے بڑھا… مگر ابھی وہ دو چار قدم چل کر ٹینا گلہری کے دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ تیز ہوا سے اُس کے قدم اکھڑ گئے اور وہ گر پڑا۔اُس کے حلق سے ایک زور دار چیخ نکلی تھی۔
’’کیا ہوا؟… بابا گوشی کیا ہوا؟‘‘ یہ ٹینا گلہری کی آواز تھی، بابا گوشی کی آواز سن کر باہر آئی تھی۔
بابا گوشی نے ہانپتے ہوئے اسے ساری بات بتائی۔
’’بابا گوشی!… آپ بالکل پریشان نہ ہوں… میں موٹے بھالو کے ساتھ جاکر وہ گھاس لے آؤں گی، آپ گھر پر آرام کریں۔‘‘
اُس نے بابا گوشی کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا اور واپس اُن کے گھر لے جا کر اُن کے پلنگ تک پہنچایا۔
پھر وہ تیزی سے دروازہ بند کرکے باہر نکلی اور دو گھر چھوڑ کر موٹے بھالو کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانے لگی۔
موٹا بھالو اِس وقت شہد پی رہا تھا، دستک کی آواز سن کر پریشان ہوگیا۔
اُس نے دروازہ کھولا توسامنے ٹینا گلہری تھی۔
ٹینا نے موٹے بھالو کو جلدی جلدی ساری بات بتائی تو موٹا بھالو فورا ًمدد کے لیے تیار ہوگیا۔ وہ ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
بس پھر کیا تھا…
ٹینا گلہری موٹے بھالو کے کندھے پر بیٹھ گئی اور موٹے بھالو نے اللہ کا نام لے کر جھیل کی طرف دوڑ لگا دی۔
شدید طوفانی ہواؤں اوربارش کا مقابلہ کرتے ہوئے دونوںجھیل کے پاس جنگلی گھاس تک پہنچ گئے۔اُنھوں نے گھاس کے تنکے توڑے اور واپسی کے لیے مڑ گئے۔
طوفان سے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔کئی درخت تو اُن کے سامنے ہوا سے گرے بھی، مگر وہ حفاظت کی دعا پڑھتے بچتے بچاتے واپس اپنے محلے پہنچ ہی گئے۔
بابا گوشی کے گھر سے زور زور سے کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔
موٹا بھالو تو بابا کے گھر میں نہیں آ سکتا تھا، اُس نے ٹینا گلہری کو بابا کے دروازے پر اتارا اور خود باہر بیٹھ گیا۔
ٹینا گلہری تیزی سے اندر گئی۔بابا کو تسلی دی اورجلدی سے ایک کونے پربنی ہوئی انگیٹھی میں کوئلوں کو دہکانے لگی، کوئلوں نے آگ پکڑی تو اس ن ے چولھے پر ایک پتیلی میں گھاس کے تنکے اور پانی ڈال کر چڑھا دیا۔پھر اس نے دروازہ کھول کر موٹے بھالو کو تھوڑا شہد لانے کو کہا۔
موٹا بھالو بھاگ کر اپنے گھر سے شہد لے آیا۔
ٹینا گلہری نے تھوڑا سا شہد گھاس والے پانی میں ڈالااور تھوڑا شہد ڈال کر بابا گوشی کے لیے گاجر کا حلوہ بنا لیا۔گاجریں بابا کے گھر میں کافی ساری تھیں۔
جھیل والی گھاس کی عجیب خاصیت تھی کہ جیسے ہی پانی میں جاتی تھی، پانی نیلا ہو جاتا تھا۔
تھوڑی دیر میں نیلا نیلا پانی ابلنے لگا تو ٹینا نے جلدی سے اسے چھانا اور بابا گوشی کو ایک پیالے میں نکال کر پلانے لگی۔
تھوڑی ہی دیر میں بابا گوشی کی طبیعت بہت سنبھل چکی تھی۔وہ اب بہت سکون میں تھے۔
کھانسی میں فورا ًآرام آگیا تھا۔
اب ٹینا گلہری نے انھیں نرم نرم گاجر کا حلوہ نکال کر دیا، کیوں کہ بابا کے لیے اِس عمر میں ثابت گاجریں کھانا بہت مشکل ہوتا تھا، پھر اب وہ بیمار بھی تھے۔
حلوہ کھا کر بابا گوشی نے نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ٹینا اور موٹے بھالو کو دعائیں دینا شروع کردیں۔
ٹینامسکرائی ،انھیں کمبل اوڑھایا اور صبح آنے کا کہہ کر باہر چلی گئی۔ موٹا بھالو ابھی تک باہر بیٹھا تھا۔
ٹینا نے اسے بابا کی حالت کا بتایا تو وہ بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چل دیا۔

٭…٭

Library

گھر میں لائبریری بنائیں!

کتابوں کو تنہائی کی بہترین ساتھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر قسم کا علمی مواد ہوتا ہے جن سے ہم خیر و شر میں تمیز سیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم و تفریح کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کے کئی ممالک کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ہاں کتابی شکل میں سفرناموں کے ذریعے ہم ملکوں ملکوں گھوم بھی سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انسانیت کی بھلائی کے لیے جو احکامات وحی کے ذریعے نازل کیے وہ آج کتاب ہی کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں، جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے۔
اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ آپ کو اچھی کتابوں کے مطالعے کا شوق بھی ہونا چاہیے۔ یہ مطالعہ آپ کو ان میں موجود اچھی باتوں پر عمل کرنے پر بھی مجبور کرے گا۔ مطالعے کے بعد آپ پر ایک فرض اور بھی بنتا ہے کہ آپ اس سفر کو آگے بڑھائیں یعنی دوستوں تک اس کتاب کو پھیلائیں تاکہ علم کا سفر جاری رہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد اسے گھر میں سنبھال کر رکھیں تاکہ ضرورت کے وقت یا کسی حوالے کے وقت ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔ اس کے لیے آپ کے گھر میں آپ کا ایک ذاتی کتب خانہ ہونا ضروری ہے۔ آج ہم آپ کو ذاتی کتب خانے کی اہمیت اور اسے بنانے کے بارے میں تفصیلاً بتاتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ جب اسکول، کالج اور عوامی سطح پر سرکاری اور نجی اداروں نے کتب خانے قائم کر رکھے ہیں تو پھر گھر مین علیحدہ لائبریری کیوں بنائیں؟
جواب یہ ہے کہ عوامی کتب خانے مخصوص اوقات کے لیے کھلتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی لائبریری سے آپ دورانِ تعلیم ہی کتب حاصل کرسکتے ہیں۔
جب آپ گھر میں کتب خانہ قائم کرنے کا ارادہ کریں تو اس کے لیے گھر میں یا کمرے میں کوئی جگہ مخصوص کرلیں۔ اس کے لیے الماری یا شیلف ہونا ضروری ہے، تاکہ کتابیں بے ترتیب نہ رہیں اور نہ ہی خراب ہوں۔ ترتیب سے رکھنے کا فائدہ تلاش کرنے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اب دوسرا مرحلہ کتابوں کا انتخاب کا اور خریداری ہے۔ آپ اپنی جیب خرچ سے کچھ رقم بچائیں۔ اگر آپ کے والدین کی مالی پوزیشن اچھی ہے تو ان سے بھی کتابوں کی خریداری کے لیے علیحدہ رقم لی جاسکتی ہے۔
کتابوں کی خریداری کا آغاز قرآن مجید سے کیجیے۔ قرآن مجید کا مستند ترجمہ اور تفسیر بھی ساتھ لیں۔ جب آپ ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائیں تو تفسیر بھی پڑھنا شروع کرسکتے ہیں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے کیا فرما رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے روشن پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے بعد سیرت پر مبنی مستند سیرت نگاروں کی کتب لیجیے۔
کوشش کیجیے کہ آپ بڑے مصنفوں کی کئی جلدوں پر مبنی کتابوں کے بجائے ایک جلد پر مبنی کتاب خریدیں۔
اللہ کے نیک بندوں، خلفائے راشدین اور علم و ادب کی بڑی شخصیات کے بارے میں پڑھ کر اس میں عزم و حوصلہ پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ سفرنامے، کہانیاں، ناول، اقوال زریں، معلومات عامہ، تحریکِ پاکستان کی شخصیات اور تاریخی ناول آپ کے پسندیدہ موضوع ہوسکتے ہیں۔
آپ کے شہر میں، اردو بازار تو ہوگا جہاں سے کتب مل سکیں۔ دوسری اہم جگہ کتب میلہ بھی ہوسکتی ہے، جہاں سے کئی اہم موضوعات پر بارعایت کتابیں لے کر گھر لائبریری میں سلیقے سے سجائی جاسکتی ہیں۔ کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی ایکسپو سینٹر میں سالانہ نمائش لگتی ہے۔ ان میں ضرور جائیں۔
لائبریری میں کتابوں کو موضوع کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ رکھیں۔ ہوسکے تو ان کے شیلف پر موضوع کا لیبل بھی لگادیں۔ الماری یا شیلف کے سب سے اوپر خانے میں قرآن مجید، حدیث رسول اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر اللہ والوں کیسیرت کی کتب رکھ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ اسلام پر بھی کتب رکھ دیں۔ اس کے نیچے دیگر شخصیات، معلومات، شاعری، اضافہ، کہانی، سوانح، سفرنامے، انسائیکلو پیڈیا اور لغت رکھ سکتے ہیں۔
اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ ایک ذاتی لائبریری کے مالک بن جائیں گے۔ اس سے آپ کے والدین، بہن بھائی، رشتے دار اور دوست بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔

Jungle

اوٹ پٹانگ

چوہے نے ایک بلی پالی
بلی نے اک شیر
شیر بچارا پیٹ کا مارا
کھائے سوکھے بیر
بیر کی گٹھلی پر سے اک دن
پھسل گیا اک اُونٹ
اونٹ کو گرتا دیکھ کے مرغی
دوڑی چاروں کھونٹ
مرغی کا واویلا سن کے
ہنسنے لگی اِک گائے
گائے کو ہنستا دیکھ کے بندر
بولا ہائے رے ہائے

Cage

پنجرہ

ٹرین ایک چھوٹے اسٹیشن پر رکی۔ ایک صاحب بھاگتے ہوئے ٹرین سے نکلے۔ بھاگتے بھاگتے ایک دکان کے اندر داخل ہوئے اور بولے:
’’بھائی… جلدی سے ایک پنجرہ دے دو۔ مجھے ٹرین پکڑنی ہے۔‘‘
دکاندار نے اُن صاحب کی طرف حیرت سے دیکھا اور بولا:
’’ مجھے افسوس ہے میرے پاس اتنا بڑا پنجرہ نہیں ہے۔‘‘
٭…٭

Chalak Sardar

چالاک سردار حیران رہ گیا

اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں ہو گئی تھیں۔احمد، فاطمہ اور زینب چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی نانی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ احمد کو اپنی نانی اماں بہت اچھی لگتی تھیں۔وہ ہر وقت مسکراتی رہتیں، بچوں سے پیار کرتیں اور انھیں بڑے مزے مزے کی کہانیاں سناتی تھیں۔
اُس روز ماموں جان دفتر سے آئے تو بچوں کے لیے بہت ساری مونگ پھلیاں اور گزک لے کر آئے۔رات کے کھانے کے بعد نانی اماں عشا کی نماز پڑھ کر اپنے پلنگ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔تینوں بچے مونگ پھلیاں اور گزک لے کر اُن کے پاس آگئے۔احمد نے کہا:
’’نانی اماں!کہانی سنائیں!‘‘
نانی اماں نے تینوں بچوں کو اپنے کمبل میں لے لیا۔پہلے تو اُنھوں نے زینب سے کہا:
’’زینب بیٹا!ایک ٹوکری لے آؤ اورتم تینوں مونگ پھلی کے چھلکے اِدھر اُدھر پھینکنے کے بجائے ٹوکری میں ڈالتے جاؤ۔‘‘
زینب جلدی سے ٹوکری لے آئی۔ نانی اماں نے اُسے شاباش دی اور کہانی شروع کی۔
’’آج میں تم کو ایک چالاک سردار کی کہانی سناؤں گی۔ اُس کا نام ہُرمُزان تھا۔ہُرمُزان ایرانیوں کے ایک فوجی لشکر کا سردار تھا۔اُس زمانے میں ایران کے لوگ اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو اپنا خدا سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی ہُرمُزان سے کئی جنگیں ہوئیں۔ ہر جنگ میں وہ ہار جاتا۔ ہار کر میدان سے بھاگ جاتا۔ایک جنگ میں ہار کر اُس نے مسلمانوں سے صلح بھی کر لی۔ صلح کرکے اُس نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ کر لیا۔‘‘
’’جِزیہ کیا ہوتا ہے نانی اماں؟‘‘
فاطمہ نے نانی اماں سے پوچھا۔ نانی اماں نے فاطمہ کے منھ پر سے گزک کا ٹکڑا صاف کرتے ہوئے اُسے بتایا:
’’بیٹا!اسلامی حکومت، غیر مسلموں سے اُن کی جان و مال کی حفاظت کرنے کے بدلے جو ٹیکس لیتی ہے، اُسے جِزیہ کہتے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر نانی اماں نے کہانی پھر وہیں سے شروع کی، جہاںسے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
’’ہاں … تو ہُرمُزان نے مسلمانوں کو جِزیہ دینے کا وعدہ تو کر لیا، مگر وعدہ پورا نہیں کیا۔ دھوکا دیا۔اُس نے دو مرتبہ ایسا کیا۔ تیسری بار وہ ایران کے ایک شہر تستر میں جا کر ایک قلعے میں بند ہوگیا۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک پیارے صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تستر پر حملہ کیا اور شہر فتح کر کے اُس پر قبضہ کر لیا۔ہُرمُزان نے ایک بار پھر ہتھیار ڈال دیے،مگر اِس بار اُس نے ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنی یہ شرط منوائی کہ اُسے ہتھیار ڈالنے کے بعد حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اُس وقت مسلمانوں کے سربراہ یعنی امیرالمومنین تھے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہٗ نے اُس سے وعدہ کر لیا اور یہ وعدہ پورا کیا…‘‘
’’نانی اماں!مسلمانوں نے ایسے دھوکے باز آدمی سے وعدہ کیوں پورا کیا؟ مسلمانوں کو بھی بدلے میں اُسے دھوکا دینا چاہیے تھا۔‘‘ احمد نے نانی اماں کی بات کاٹ کر بڑے غصے سے کہا۔ نانی اماں نے اُسے پیار کیا اور کہا:
’’توبہ توبہ … نہیں بیٹا!ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔مسلمان کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو وعدہ خلافی کرتا ہے، اُس کا کوئی دین ایمان ہی نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔‘‘
زینب نے کہا: ’’نانی اماں!بھائی کی بات چھوڑیں۔ آپ آگے کہانی سنائیں۔‘‘
نانی اماں نے کہا: ’’ہُرمُزان جب مدینہ پہنچا تو اُس نے اپنے سر پر تاج رکھا ہوا تھا۔سونے کے دھاگوں سے سلے ہوئے ریشمی کپڑے ’’دِیبا‘‘ کی قبا پہنے ہوئے تھا۔بہت سارے ہیرے جواہرات اورزیورات بھی گلے میں ڈال رکھے تھے۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اُس وقت مسجد نبوی کے فرش پر اکیلے لیٹے ہوئے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سر کے عمامے کا تکیہ بنایا ہوا تھا۔
ہُرمُزان کو امیر المومنین کی خدمت میں پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ہُرمُزان ہے۔یہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
امیر المومنین نے فرمایا:’’جب تک یہ اپنے اس لباس میں رہے گا، میں اُس سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
ہُرمُزان جب اپنے کپڑے تبدیل کرکے عام لباس میں آیا تو امیرالمومنین نے اُس سے پوچھا:’’تو بار بار بدعہدی (یعنی وعدہ خلافی) کیوں کرتا رہا؟ تیرے پاس کیا جواب ہے؟‘‘
ہُرمُزان نے کہا: ’’مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ میرا جواب سنے بغیر ہی مجھے قتل نہ کردیں‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: ’’ڈرو مت۔ تمھارا جواب ضرور سناجائے گا۔‘‘
پھر ہُرمُزان نے پانی مانگا۔ پانی آیا تو اُس نے پیالہ ہاتھ میں لے کر اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کردیا اور کہنے لگا:
’’مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت ہی میں قتل نہ کردیں۔‘‘
امیر المومنین نے فرمایا: ’’تم خوف نہ کھاؤ۔ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘
یہ سن کر اُس نے پیالہ زمین پر پٹخ کر توڑ دیا اور کہا:
’’اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے، تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔اب تو یہ پانی زمین میں مل چکا ہے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ہُرمُزان کے چالاکی دکھانے اور دھوکا دینے پر بہت غصہ آیا،لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’ہُرمُزان!تونے مجھے دھوکا دیاہے، لیکن میں تجھے دھوکا نہیں دوں گا۔اسلام نے ہمیں اُس کی تعلیم نہیں دی۔ میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‘‘
یہ بات سن کر چالاک سردار حیران رہ گیا۔
وہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے اِس سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ وہ بھی مسلمان ہو گیا۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوہزار درہم سالانہ اُس کی تنخواہ مقرر کر دی اور وہ مدینہ منورہ میں ہی رہنے لگا۔‘‘
کہانی ختم کرکے نانی اماں نے بچوں سے کہا:
’’اِس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی، جب کسی سے کوئی وعدہ کریں تو اُسے ہر حال میں پورا کریں۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ یہی مسلمان کی شان ہے۔‘‘


٭…٭

Dosti Tot Gai

دوستی ٹوٹ گئی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جماعت میں دو دوست ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ دونوں میں سے ایک پڑھائی میں کمزور اور دوسرالائق بچہ تھا۔ لائق بچہ تھا تو بہت محنتی لیکن غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔جب کہ پڑھائی میں کمزور بچے کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا۔ دونوں پکّے دوست تھے مگر ایک دن آپس میں ان کا جھگڑا ہوگیااور ان کی دوستی ٹوٹ گئی۔
غریب بچہ دل کا بہت اچھا تھا، اس کے بر عکس امیر لڑکا دل میں حسد اور بغض رکھتا تھا۔ امتحان شروع ہونے والا تھا۔ امیر بچے کی خواہش تھی کہ وہ کلاس میں اوّل پوزیشن لے کر اپنے دوست کو کم تر اور نیچا دکھائے۔ اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور غریب بچے نے کلاس میں اوّل پوزیشن لی۔ اساتذہ نے اس کی بہت تعریف کی۔ امیر بچّہ اب اس سے اور حسد کرنے لگا۔
جب وہ دونوں نئی جماعت میں گئے تو آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔
ایک دن امیر بچہ اچانک گر گیا اور اسے شدید چوٹ لگی۔ اسے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں آیالیکن صرف اس کاغریب دوست آیا۔ غریب دوست نے اس کی نہ صرف مدد کی بلکہ بھاگتے بھاگتے جا کر سکول میں موجود ڈاکٹر کو بھی بلا لایا۔ امیر بچّہ اپنے دوست کے خلوص اور محبت سے بہت متاثر ہوا۔ امیر بچّہ اپنے کیے پہ شرمندہ تھا اور اس نے اپنے دوست سے معافی مانگی اور دونوں دوبارہ بھائی بھائی بن کر رہنے لگے۔

وزیر کا راز

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ بادشاہ کو ایک بہت بڑا مسئلہ پیش آیالیکن کوئی بھی اسے حل نہ کر سکا۔ بادشاہ نے اعلان کرایا کہ جو مجھے اس مسئلے کا حل تلاش کر کے دے گا میں اسے دربار میں اہم رتبہ سونپ دوں گا۔ ایک غریب شخص نے اس مسئلے کے حل سے متعلق بادشاہ کوایک تجویز دی۔ بادشاہ کو اس کی تجویز بہت پسند آئی اور اس کی بدولت وہ مسئلہ حل ہوگیا۔
وعدے کے مطابق بادشاہ نے اسے ایک اہم ذمہ داری سونپ دی اور دربار میں رہنے کی جگہ بھی دے دی۔غریب آدمی نے بادشاہ سے یہ شرط منوائی کہ آپ مجھے صرف ایک کمرہ دے دیں جس کے اندر میں اپنا سامان رکھ سکوں اور آپ روزانہ مجھے ایک گھنٹہ دیں گے تا کہ میں کمرے میں جاکر اپنے مرضی کے مطابق وقت گزار سکوں اور کسی کو بھی اس بات سے کوئی اختلاف نہ ہو۔
بادشاہ نے غریب کی شرط مان لی اور یہ اس شخص کا معمول بن گیا کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ اپنے کمرے میں گزارتا تھا۔بادشاہ کو اس بات سے کوئی اعتراض نہ تھا لیکن دربار میں موجود کچھ لوگ اس سے جلتے تھے۔ لوگوں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح پتا چلے کہ اندر کیا ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی نہ جان سکا۔ چنانچہ انھوں نے بادشاہ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور اسے غریب کے خلاف بھڑکایا کہ یہ روزانہ ایک گھنٹہ آپ کے دشمنوںسے خط کتابت کرتا ہے اور حکومت کے راز اُن تک پہنچاتا ہے۔ یہ ایک جاسوس ہے۔آپ اسے فوراََ دربار سے نکال باہر کریں۔
بادشاہ نے کہا کہ پہلے تفتیش کرنی چاہیے کہ وہ ایک جاسوس ہے بھی کہ نہیں۔اگلے روز بادشاہ اور وہ سب کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ وہ غریب آدمی کوئی جاسوس نہیں بلکہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے رو رہا ہے۔ بادشا نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
غریب آدمی نے جواب دیا کہ آج میں جس مقام پہ ہوں وہ ملازمت تو آپ نے دی ہے لیکن اصل میں یہ میرے رب کی طرف سے عطا ہے۔ میں اپنے پرانے حالات کو بھولا نہیں ہوں۔ اس لیے میں روزانہ یہ پھٹا پرانا لباس پہنتا ہوں اور رو رو کر اپنے رب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اتنا اعلیٰ مقام دیا کہ آج میں اتنا اچھا لباس پہن کر اتنی خوب صورت جگہ پر رہتا ہوں۔ میں اپنے رب کا جتنا بھی شکر کروں ،کم ہے۔
بادشاہ اس آدمی کی بات سن کر اتنا متاثر ہوا کہ اس کو اپناوزیرِخاص مقرر کیا اور اسے پہلے سے زیادہ عزت و تکریم دی اور دربار کے تمام حسد کرنے والوں کو معزول کردیا۔

Kids Blog

کاش میں ایک دریا ہوتا!

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں ایک دریا ہوتا۔ اُونچے اُونچے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت جھیلوں سے نکلتا۔ بل کھا تے پہاڑی راستوں پر مزے سے بہتا۔ بڑی بڑی چٹانیں میرے زور کے سامنے ٹہر نہ پاتیں۔ میرے کنارے لگے درخت مجھ میں اپنا عکس دیکھا کرتے۔
میں رنگ برنگ کی مچھلیوں کا گھر ہوتا۔ گرمی کے موسم میں جب پہاڑوں پر برف پگھلتی تو میرے اندر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی آجاتا۔گرمی سے اکتائے ہوئے لوگ دور دور سے میری سیر کو آجاتے۔ پہاڑوں سے بہتا بہتا جب میں میدانوں تک آتا تو میری رفتار آہستہ ہوجاتی۔ پھر میں ہری بھری فصلوں کو سیراب کرتا۔ باغوں کے سب درخت اور کھیتوں کے سب پودے میرے دوست بن جاتے۔ بچے مجھ میں ڈبکیاں لگایا کرتے۔میں سب کو فائدہ اور خوشی دیتا۔سمندرسے ملنے کے لیے مجھے طویل راستہ طے کرنا پڑتا لیکن اس خوب صورت سفر میں جب لوگ مجھ میں کچرا پھینکتے اور فیکٹریاں اپنا فضلہ مجھ میں بہاتی ہیں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے مگر میں کچھ کر نہیں پاتا۔
جب ہم اپنے کسی عزیز کو نہ چاہتے ہوئے دکھ دیں تو ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا ناں! اس لیے مجھے یہ خیال آیا کہ ہمیں کبھی کسی دریا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے دوسرے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کرنا چاہیے۔