یتیم بچے…عظیم لوگ

اُن عظیم لوگوں کا تذکرہ…جو بچپن میں یتیم ہوگئے تھے… لیکن انھوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی بدولت دنیا پر راج کیا

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم (امام بخاریؒ)
امام بخاری ۱۹ جولائی ۸۱۰ء کو اُز بکستان کے شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ ابھی کم سِن ہی تھے کہ والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔امام بخاری ؒ کو بچپن ہی سے حدیثیں یاد کرنے کا بہت شوق تھا۔۱۰ سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ بن مبارک ؒ اور امام وکیع کی روایت کردہ تمام احادیث حفظ کر لیںاور ۱۸ سال کی عمر میں ایک تصنیف شروع کی جس میں صحابہ و تابعین کے فیصلے اور مختلف اقوال موجود تھے۔
امام بخاریؒ کا حافظہ انتہائی قوی تھا اور آپ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔محمد بن حاتم ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’امام کو احادیث کا اتنا شوق تھا کہ رات میں پندرہ بیس مرتبہ اٹھ کر چراغ روشن کر کے مطالعے میں مشغول ہوجاتے۔صحیح بخاری احادیث کی سب سے مستند کتاب ہے ،اس کی تالیف کا کام امام بخاری نے ہی انجام دیا۔آپ ایک حدیث کو حاصل کر نے کے لیے میلوں تک پیدل سفر کرتے اور انتہائی کڑی شرائط کے ساتھ راوی سے حدیث لیتے۔جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے اور پھر دو رکعت نفل ادا کرکے حدیث تحریر فرماتے۔یوں آپ نے ۱۶برس میں صحیح بخاری کی تالیف کا کام مکمل کیا۔صحیح بخاری کے علاوہ بھی امام کی بہت سی تصانیف ہیں۔(زمانہ طالب علمی میں آپ کو کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا مگر آپ اللہ پر توکل کرتے ہوئے کسی سے ذکر نہ کرتے)۔
آپ ۲۵۰ھ میں نیشا پور تشریف لے گئے۔وہاں کے عوام اور علما نے آپ کا بھر پور استقبال کیا۔آپ کے عالی مرتبے اور شہرت سے حسد کرنے والے کچھ لوگوں نے آپ پر بے بنیاد الزامات لگانا شروع کردیے جن سے تنگ آکر آپؒ نے بخارا کا رُخ کیا۔وہاں زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حاکم نے پیغام بھجوایا کہ آپ ہمیں اپنی کتاب بخاری سنایا کریں، اس خط کے جواب میں امام نے فرمایا کہ یہ دین کا علم ہے اور اگر اسے حاصل کرنے کی تڑپ ہے تو میرے گھر پر یا عام مجلس میں آیا کرو۔ حاکم کو یہ بات ناگوار گزری اور اُس نے آپ کو شہر سے نکال دیا۔اس کے بعد امام سمرقند چلے گئے اور وہیں آپ ؒ یکم شوال ۲۵۶ھ کو انتقال کرگئے۔


شیخ احمد یاسین (حماس کے بانی)
شیخ احمد یاسین ؒ ۱۹۳۶ء کو غزہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی آپ چار سال کے تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا،جس کے بعد گھر کی کفالت کی ذمہ داری بڑے بھائی نے سنبھال لی اور آپ کو مدرسے میں داخل کروادیا۔ابھی آپ چہارم جماعت میں تھے کہ یہودیوں نے گھر سے بے گھر کردیا اور آپ کے خاندان کو سمندر کنارے مہاجر کیمپ میں منتقل ہونا پڑا۔۱۶ سال کے تھے کہ ساحلِ سمندر پر ورزش کے دوران گردن کے مہرے ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے نچلے دھڑ کا مکمل حصہ فالج زدہ ہوگیا۔آپ نے ایسی حالت میں بھی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں کیا اور ۱۹۵۸ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان اول پوزیشن سے پاس کیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے غزہ کے اسکول میں بحیثیت عربی و دینیات کے مدرس فرائض انجام دینے شروع کیے۔
آپ نے پہلے ہی دن سے طے کیا کہ ہونہار طلبہ کو اپنے گرد لے کر آئیں گے اور انھیں دین کی طرف بلائیں گے۔استاد احمد یاسین نے اخوان المسلمون سے سیکھا ہوا سبق نئی نسل تک منتقل کرنا شروع کردیا۔ اس محاذ پر شیخ کو بہت سے معرکے بھی پیش آئے جن کا آپ نے ہمت اور جواں مردی سے سامنا کیا۔آپ نے اس کے علاوہ غزہ کی مسجد میں خطابت کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا حلقہ اثر وسیع ہوتا چلا گیا۔ آپ نے غزہ میں ایک تحریک برپا کرکے یہودیوں کے قبضے میں آنے والے شہروں میں جاکر بے آباد ہونے والی مسجدوںکو پھر سے آباد کرنا شروع کردیا۔غریب گھرانوں کی مدد کے لیے رفاہی ادارے قائم کیے اور نئی نسل میں جہادی روح کو بیدار کیا۔شیخ یاسین جس تندہی سے جہادی نرسری تیار کر رہے تھے دشمن اس سے غافل نہ تھا ۔ اس نے لوگوں پر پابندیاں لگائیںاور جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیالیکن فلسطینیوں کے عزم کو کمزور نہ کر سکا۔ منبر و محراب سے شروع ہونے والی اس تحریک کو شیخ نے حماس کا نام دیا جس کے جوان آج بھی پتھر اور غلیل اٹھائے غاصب یہودیوں کے سامنے بر سرِ پیکار ہیں۔ ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو فجر کی نماز کے بعد فلسطینی قوم کے اس عظیم رہنا اور سپہ سالار کو میزائل حملہ میں شہید کر دیا گیا۔


نیلسن منڈیلا(افریقا کے سابق صدر)
نیلسن منڈیلا ۱۸ جولائی ۱۹۱۸ء کو جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گائوں ماویزو میں پیدا ہوئے۔ منڈیلا نے ابتدائی تعلیم ایک چرچ سے حاصل کی ۔ جب ۹ سال کی عمر کو پہنچے تو والد کا پھیپھڑوں کے مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد میکازوینی منتقل ہوگئے جہاں آپ کی پرورش امیرِ شہر نے کی۔
میکازوینی میں اُنھوں نے انگریزی ، جیوگرافی اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی ۔
منڈیلا افریقا میں نسلی و رنگی امتیازات کے سخت خلاف تھے۔انھوں نے ۱۹۴۲ء میں افریقن نیشنل کانگریس میں حصہ لیا اور انگریزوں کے افریقیوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ۱۹۶۳ء میں حکومت نے ان کو جلائو گھیرائو اور تشدد کے الزام میں جیل میں ڈال دیا۔ منڈیلا نے اپنی زندگی کے ۲۷ سال جیل میں گزارے۔ جیل سے رہائی کے بعد منڈیلا نے مذاکرات کا راستہ اپنایااور افریکن نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۹۴ء کے جمہوری الیکشن میں منڈیلا افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے جس کے بعد اُنھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں افریقہ سے نسلی امتیازات کو ختم کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے میں صرف کیں۔۵سال کی صدارت کے بعد منڈیلا نے خود کو سیاست سے الگ کر کے سماجی خدمات کے لیے وقف کر دیا۔افریقی قوم کے اس عظیم رہنما نے ۵ دسمبر ۲۰۱۳ء کو جوہانسبرگ میں وفات پائی۔


ارسطو(معروف فلسفی)
ارسطو ۳۸۴ قبلِ مسیح میں یونان کے ایک قدیم شہر استاگرہ میں پیدا ہوا۔ ارسطو نے طب، ریاضی اور طبیعات کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا، جب دس سال کا ہوا تو باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔۱۸ سال کی عمر میں ارسطو ایتھنز چلا گیاجو اُس وقت علم و حکمت کا مرکز تھا۔ یہاں اس نے اپنے استاد افلاطون Platoسے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ ارسطو صرف فلسفی ہی نہیں تھا بلکہ وہ علمِ حیوانیات، ریاضی، سیاسیات اور علمِ اخلاقیات پر قدیم علما کے نزدیک صاحب الراے مانا جاتا تھا۔ ارسطو کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے زیادہ ہے۔۳۳۵ قبلِ مسیح میں ایتھنز میں اپنے اسکول کی بنیاد ڈالی جہاں اس نے علمی اور عقلی مکتب فکر کو فروغ دیا۔ اخیر عمر میں اپنے شاگرد سکندرِ اعظم کے نظریات سے اختلاف اور اس کی موت کے بعد یونان سے کوچ کر گیا۔ ارسطو نے ۷ مارچ ۳۲۲ قبلِ مسیح کو وفات پائی۔


ایگر ایلن پو
مشہور انگریزی شاعر اور ادیب ایگرایلن پو،۱۹ جنوری ۱۸۰۹ء کو امریکہ کے شہر بوسٹن میں پیدا ہوا۔’ پو‘ کے والد اس کی پیدائش کے ایک سال بعد ہی اسے چھوڑ گئے اورتین سال کی عمر میں ماں کی ممتا سے بھی محروم ہوگیا۔پو کے یتیم ہوجانے کے بعد جان اور ایلن نے لڑکپن تک اس کی پرورش کی۔ ’پو‘ کی زندگی میں مشکلات تب شروع ہوئیں جب وہ قرضوں کے بوجھ تلے دب گیااور ایک سال کے اندر ہی اسے فیس ادا نہ کرنے پر جامعہ سے نکال دیا گیا۔ ’پو‘ نے اپنے تعلیمی اخراجات اٹھانے کے لیے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی اور یہیں سے اس کے ادبی کیرئیر کا آغاز ہوا۔اس کی پہلی نظم Tamerlane ۱۸۲۷ء میں ــ’’بوسٹن کا شہری‘‘کے نام سے شائع ہوئی جسے بہت پذیرائی ملی۔ وہیں سے اس نے محسوس کیا کہ اسے فوج کی نوکری کے بجاے ادب پر توجہ دینی چاہیے۔ ’پو‘ ایک اچھا شاعر اور ذہین نقاد تھا لیکن بین الاقوامی طور پر اپنے افسانوں کی وجہ سے مشہور ہوا۔ پو عجیب الخلقت اور ڈرائونے ادب کا استاد اور سائنسی کہانیوں کا بانی اور ساتھ ہی ساتھ سراغرساں کہانیوں کا موجد بھی تھا ۔ پو کا انتقال ۷ اکتوبر ۱۸۴۹ء کو چالیس سال کی عمر میں بالٹیمور میں ہوا۔


محمد بن قاسم(عظیم فاتح)
محمد بن قاسم ۶۹۴ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ تقریباً پانچ سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ غربت کی وجہ سے اعلا تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لیے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت اُنھوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلا عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔پندرہ سال کی عمر میں سِن ۷۰۸ء میں ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے انھیںسپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی ۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر سترہ برس تھی۔اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور سترہ سال کی عمر میں انھیں سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کیے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
حجاج بن یوسف کے انتقال کے کچھ ہی ماہ بعد اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کابھی۹۶ھ میں انتقال ہوگیا۔ ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک جانشیں مقرر ہوا جو حجاج بن یوسف کا سخت دشمن تھا۔ اس عداوت کا بدلہ اس نے حجاج کے تمام خاندان سے لیا اور محمد بن قاسم کو حجاج کے خاندان کا فرد ہونے کے جرم میں گرفتار کر کے دمشق بھیج دیا۔ سلیمان نے انھیں قید خانے میں بند کروادیا۔ ۷ ماہ قید کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد وہ ۷۱۵ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔


٭…٭

ایک باہمت رہنما

ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنمامولانا محمد علی جوہر ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو ہی سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ آپ کو بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ آپ نے بی اے کا امتحان الٰہ آباد یونیورسٹی سے اول پوزیشن میںپاس کیا۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی اور واپسی پرکلکتہ جا کر انگریزی اخبارکامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جانے لگا۔ انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اردو دانی بھی خوب تھی۔
مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ تحریک عدم تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ ۱۹۱۹ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔
جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری ۱۹۳۱ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے اور وہاں آپ نے آزادیٔ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے لندن میں انتقال فرمایا۔ آپ کی تدفین بیت المقدس میں ہوئی۔

سب سے بڑا پرندہ

شتر مرغ دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے جو صرف براعظم افریقا کے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ شتر مرغ دنیا کا وہ واحد پرندہ ہے جو اُونٹ جتنا بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ غول کی صورت میں رہتے ہیں۔ غول ایک سردار ہوتا ہے۔ جس کی رہنمائی میں غذا تلاش کرتے ہیں۔
خاندان:
شترمرغ کا تعلق پرندوں کے اُس خاندان سے ہے جو اُڑ نہیں سکتے۔ شتر مرغ کے خاندان میں کیوی، ایمو،ریا اور کیسوری قابل ذکر ہیں۔
اقسام:
چار قسم کے شترمرغ بہت مشہور ہیں۔
۱۔جنوبی شتر مرغ۔۲۔مسائی شترمرغ۔۳۔سرخ گردن والا شتر مرغ۔۴۔صومالی شتر مرغ
جنوبی شتر مرغ صرف جنوبی افریقا کے ممالک میں ملتی ہے۔ اس کے پرَ بہت گھنے اور سیاہ ہوتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے پرَوں کی وجہ سے ہی شوق سے پالتے ہیں۔
مسائی شتر مرغ افریقی ممالک، کینیا،تنزانیہ،ایتھوپیااور صومالیہ میں ملتی ہے۔ اس کے سر پر چھوٹے چھوٹے پرَ ہوتے ہیں۔
سرخ گردن والا شتر مرغ کو شمالی افریقی شتر مرغ بھی کہتے ہیں۔ تمام اقسام میں اس کی لمبائی سب سے زیادہ ہے۔ سرخ گردن اس کی خاص پہچان ہے۔ نر کے پرَسیاہ اور مادہ کے سرمئی ہوتے ہیں۔
جسم
شترمرغ اُونٹ کی طرح لمبا چوڑا، مضبوط ،لمبی ٹانگوں ، سخت چونچ اور لمبی گردن والا دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے۔ شتر مرغ اپنی لمبی ٹانگوں کی مدد سے ۷۰کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھاگ سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کا تیز ترین پرندہ بھی ہے۔
قد، عمر، وزن:
شتر مرغ کا اوسط وزن ۷۵تا ۱۰۰کلوگرام جبکہ قد ۷فٹ تک ہوتا ہے۔ تاہم ۱۶۰؍کلوگرام سے زیادہ وزنی اور ۱۰فٹ سے اُونچے شتر مرغ بھی دیکھے گئے ہیں۔شتر مرغ کی اوسط عمر ۴۵سال ہے۔
آواز:
شترمرغ بہت کم آواز نکالتا ہے۔ خطرے کے وقت وہ شیر کی طرح غُراتا ہے۔عام حالات میں اس کی آوازتیز سیٹی جیسی ہوتی ہے۔
انڈا:
شترمرغ کا انڈا دنیا کے سارے پرندوں کے انڈوں سے بڑا ہے۔ اس کے انڈے میں مرغی کے ۲۵؍انڈے آسکتے ہیں۔ ۶؍انچ چوڑے اور ۱۵؍انچ لمبے اس انڈے کا وزن ڈھائی کلو گرام تک ہوتا ہے۔ مادہ شتر مرغ جھاڑیوں یا کسی کھوہ میں ۱۵سے۲۰تک انڈے دیتی ہے۔ تقریباً ۴۰دن کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔

ن سے ناخن

گرمیوں کے موسم میں اپنے ناخنوں پر غور کریں تو آپ کو یقینا یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ ناخن جسم کا وہ واحد حصہ ہے جہاں پسینہ نہیں آتا۔ دراصل ناخن ہمارے جسم کے بے جان حصے ہوتے ہیں، جن کے نیچے پسینہ خارج کرنے والے غدود موجود نہیں ہوتے۔
ہمارے ناخن ایک خاص قسم کے مادے کیراٹین (Keratin) سے بنے ہوتے ہیں، جو ایک خاص قسم کی سخت پروٹین ہوتی ہے۔ ناخن کے نیچے اُس کی جڑیں ہوتی ہیں جس سے یہ بڑھتے ہیں۔
ماہرین کی تحقیقات کے نتیجے میں ناخن کے بڑھنے کے حوالے سے دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں جس کے مطابق مردوں کے ناخن خواتین کے ناخن کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں ناخن بڑھنے کی رفتار سردیوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاتھوں کی درمیانی انگلی کا ناخن سب سے تیز رفتاری سے بڑھتا ہے۔ ہمارے انگوٹھے کا ناخن ہماری انگلیوں کے ناخن سے دوگنا موٹا ہوتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے ناخن کیوں بنائے ہیں۔ دراصل ناخن کی مدد سے ہم چیزوں کو مضبوط گرفت کے ساتھ پکڑ سکتے ہیں۔ اُن سے ہماری انگلی براہِ راست چوٹ سے محفوظ رہتی ہے۔ عموماً ڈاکٹر ناخنوں کی شکل اور رنگت کی مدد سے مریض کے مرض کو بھی پہچانتے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی صحت اچھی رہے تو کھانا کھانے سے قبل اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح دھو لیں۔
ناخنوں کو بروقت تراشتے رہیں، کیوںکہ بڑھے ہوئے ناخنوں کے نیچے میل اور جراثیم جمع ہوجاتے ہیں، جو کھانا کھاتے وقت ہمارے منھ کے ذریعے پیٹ میں جاتے ہیں اور خطرناک بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

٭…٭

کیا گدھا بے وقوف جانور ہے؟

گدھا بے چارہ ویسے ہی بدنام ہے۔یہ وہ جانور ہے ، جسے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی سواری ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بیوی بچوں سمیت مدین سے مصر تک کا سفر اسی جانور پر کیا۔اس کی آواز تمام جانوروں میں بری ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ اپنی آواز دھیمی رکھنا کیوں کہ بد ترین آواز گدھے کی ہوتی ہے۔

حلیہ:
گدھے کا رنگ خاکستری اور دُم گھوڑے سے چھوٹی ہوتی ہے۔ گدھے گھاس چرتے ہیں ۔
گھوڑے کے مقابلے میں گدھا باربرداری (بوجھ اُٹھا کر چلنے) کے لیے زیادہ موزوں جانور ہے۔
ایسے تنگ اور دشوار گزار راستے جہاں دوسرے جانور جانے سے خوف کھاتے ہوں، گدھا مزے سے چلتا ہے۔
گدھا کس کام کا:
زمانہ قدیم ہی سے یہ جانور باربرداری کے کام آتا ہے ۔ مصریوں نے ۳۰۰۰قبل مسیح میں اُس کی مدد سے شاندار اور بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کیں ۔
گدھا سیدھا سادہ جانور ہے اور کبھی بوجھ اُٹھانے یاکام کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ اِس وجہ سے بے وقوف مشہور ہو گیا ہے۔اِس گدھے پن اور بے وقوفی کے باوجود انسان کا مشکل ترین کام گدھا ہی کرتا ہے ۔ صبر کرنے میں اُس کا جواب نہیں۔ ۲۵سے ۴۰سال تک زندہ رہتا ہے۔
باربرداری کے علاوہ چکی پیستا ہے ، پانی بھر کے لاتا ہے، بعض جگہ رہٹ چلاتا ہے۔
بادشاہوں نے بھی گدھے پر سواری کی ہے۔ پرانے زمانے میں امن کے مشن پر جانا ہوتا تھا تو گدھے کو استعمال کرتے تھے ، جب کہ گھڑسواری جنگ کا اعلان سمجھا جاتا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت المقدس میں گدھے پر سوار داخل ہوئے تھے۔
گدھوں کی اقسام:
خچر باربرداری اور سواری کے کام بھی آتا ہے۔ ا مریکا میں ٹریکٹر سے پہلے خچر ہی ہل جوتنے کے کام آتا تھا۔پالتو گدھے اور خچر کے علاوہ جنگلی گدھے بھی ہوتے ہیں۔ ایشیائی جنگلی گدھا پاکستان میں عام تھا ،یہاں تک کہ بہاولپور کے نواب نے جنگ کے دوران میں ایک صحرائی مہم میں سیکڑوں جنگلی گدھے شکار کر کے اپنی فوج کا پیٹ بھرا۔
یہ ایران، افغانستان، بلوچستان اور سندھ میں رَن کچھ میں عام ملتا تھا ۔ یہ پالتوگدھے سے خوبصورت، سُرخی مائل سفید ٹانگوں والا جانور ہے ۔ کان چھوٹے ہوتے ہیں اور ٹانگوں کے اوپر کے حصے پر دھاریاںنہیں ہوتی۔ سر بڑا اور تھوتھنی گولائی میں ہوتی ہے۔ ایال پر (یعنی گردن کے اوپری حصے پر) بال سخت ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے رَن کچھ کے اب یہ تقریباً ختم ہو چکا ہے ۔ لوگ جیپ میں بیٹھ کر اُس کا شکار کرتے رہے اور یہ سوچ کر کہ یہ فصلوں کو خراب کرتا ہے ۔ اُس کا شکار کرنا اچھا سمجھتے تھے۔
گدھوں کے باپ دادا:
افریقا کے صومالی جنگلی گدھے شاید پالتو گدھے کے آباواجداد تھے۔ پاکستان کے جنگلی گدھے کے مقابلے میں اُس کے کان لمبے اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی ہیں۔ رنگ سلیٹی ہوتا ہے ۔ آنکھوں کے گرد سفید حلقے ہوتے ہیں اور کمر اور بازو پر کالی دھاری ہوتی ہے ۔ الجزائر کا جنگلی گدھا ختم ہو چکا ہے لیکن سوڈان، صومالیہ اور بحر احمر کا جنگلی گدھا محدود تعداد میں اب بھی ملتا ہے ۔ اُس کے علاوہ صحراے گوبی میں منگولی جنگلی گدھا اور اس سے ملتا جلتا تبت میں پایا جاتا ہے ۔

گدھا پاکستان میں
گدھاگاڑی پاکستان میں بہت مقبول ہے ۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں تنگ اور گنجان علاقوں میں جہاں ٹرک وغیرہ نہیں جا سکتے، گدھا گاڑی کار آمد ہے ۔
کراچی میں چھوٹی نسل کے گدھے سڑک پر گدھا گاڑی کو سر پٹ دوڑاتے ہیں۔ کراچی میں گدھا گاڑی کی باقاعدہ دوڑ ہوتی ہے۔ پشاورجیسے شہر میں پرانا رواج ہے کہ گدھے پر سبزی اور پھل بیچتے ہیں۔ یہ چلتا پھرتا بازار ہے، نہ دکان کی ضرورت نہ کسی اور چیز کاغم۔ پاکستان کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں بلندی پر سامان پہنچانے کے لیے گدھا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

٭…٭

Birds Beak

اتنی ساری چونچیں

حیران نہ ہوں… یہ قسم قسم کی چونچیں اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی غذا کے اعتبار سے بنائی ہیں۔ دنیا میں پرندوں کی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ تمام پرندے اپنی خوراک، آب و ہوا اور رہائش کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کی جسامت کے ساتھ ساتھ اُن کی چونچ بھی مختلف قسم کی ہوتی ہے۔
اِس طرح کی چونچ اُن پرندوں کی ہوتی ہے جو بیج وغیرہ کو کُوٹ کُوٹ کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ یہ چونچ بناوٹ کے اعتبار سے موٹی ہوتی ہے۔
یہ پتلی اور نوکیلی چونچ مختلف کیڑے مکوڑے کھانے میں مدد کرتی ہے۔ نلکی (اسٹرا) کی مانند یہ چونچ ان پرندوں کی ہوتی ہے جو پھولوں سے رس چوستے ہیں یا کیچڑ میں سے کیڑے نکال کر کھاتے ہیں۔
یہ چونچ سب سے تیز اور خطرناک ہوتی ہے جو گوشت خور پرندوں میں پائی جاتی ہے اور گوشت کو نوچنے میں مدد دیتی ہے۔
وہ پرندے جو عام طور پر پانی میں یا ندیوں کے قریب رہتے ہیں اور مچھلیاں کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں اُن کی اس طرح کی چوڑی اور چپٹی چونچ ہوتی ہے۔
اِس قسم کی چونچ درخت میں سوراخ کرکے کیڑے مکوڑے کھانے والے پرندوں کی ہوتی ہے۔ یہ بہت مضبوط اور نوکیلی ہوتی ہے۔

٭…٭

Library

گھر میں لائبریری بنائیں!

کتابوں کو تنہائی کی بہترین ساتھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر قسم کا علمی مواد ہوتا ہے جن سے ہم خیر و شر میں تمیز سیکھ سکتے ہیں۔ تعلیم و تفریح کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کے کئی ممالک کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ہاں کتابی شکل میں سفرناموں کے ذریعے ہم ملکوں ملکوں گھوم بھی سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انسانیت کی بھلائی کے لیے جو احکامات وحی کے ذریعے نازل کیے وہ آج کتاب ہی کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہیں، جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے۔
اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ آپ کو اچھی کتابوں کے مطالعے کا شوق بھی ہونا چاہیے۔ یہ مطالعہ آپ کو ان میں موجود اچھی باتوں پر عمل کرنے پر بھی مجبور کرے گا۔ مطالعے کے بعد آپ پر ایک فرض اور بھی بنتا ہے کہ آپ اس سفر کو آگے بڑھائیں یعنی دوستوں تک اس کتاب کو پھیلائیں تاکہ علم کا سفر جاری رہے۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد اسے گھر میں سنبھال کر رکھیں تاکہ ضرورت کے وقت یا کسی حوالے کے وقت ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو۔ اس کے لیے آپ کے گھر میں آپ کا ایک ذاتی کتب خانہ ہونا ضروری ہے۔ آج ہم آپ کو ذاتی کتب خانے کی اہمیت اور اسے بنانے کے بارے میں تفصیلاً بتاتے ہیں۔
سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ جب اسکول، کالج اور عوامی سطح پر سرکاری اور نجی اداروں نے کتب خانے قائم کر رکھے ہیں تو پھر گھر مین علیحدہ لائبریری کیوں بنائیں؟
جواب یہ ہے کہ عوامی کتب خانے مخصوص اوقات کے لیے کھلتے ہیں۔ اسکول اور کالج کی لائبریری سے آپ دورانِ تعلیم ہی کتب حاصل کرسکتے ہیں۔
جب آپ گھر میں کتب خانہ قائم کرنے کا ارادہ کریں تو اس کے لیے گھر میں یا کمرے میں کوئی جگہ مخصوص کرلیں۔ اس کے لیے الماری یا شیلف ہونا ضروری ہے، تاکہ کتابیں بے ترتیب نہ رہیں اور نہ ہی خراب ہوں۔ ترتیب سے رکھنے کا فائدہ تلاش کرنے میں آسانی پیدا کرے گا۔
اب دوسرا مرحلہ کتابوں کا انتخاب کا اور خریداری ہے۔ آپ اپنی جیب خرچ سے کچھ رقم بچائیں۔ اگر آپ کے والدین کی مالی پوزیشن اچھی ہے تو ان سے بھی کتابوں کی خریداری کے لیے علیحدہ رقم لی جاسکتی ہے۔
کتابوں کی خریداری کا آغاز قرآن مجید سے کیجیے۔ قرآن مجید کا مستند ترجمہ اور تفسیر بھی ساتھ لیں۔ جب آپ ترجمہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائیں تو تفسیر بھی پڑھنا شروع کرسکتے ہیں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ہم سے کیا فرما رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے روشن پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کے بعد سیرت پر مبنی مستند سیرت نگاروں کی کتب لیجیے۔
کوشش کیجیے کہ آپ بڑے مصنفوں کی کئی جلدوں پر مبنی کتابوں کے بجائے ایک جلد پر مبنی کتاب خریدیں۔
اللہ کے نیک بندوں، خلفائے راشدین اور علم و ادب کی بڑی شخصیات کے بارے میں پڑھ کر اس میں عزم و حوصلہ پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ سفرنامے، کہانیاں، ناول، اقوال زریں، معلومات عامہ، تحریکِ پاکستان کی شخصیات اور تاریخی ناول آپ کے پسندیدہ موضوع ہوسکتے ہیں۔
آپ کے شہر میں، اردو بازار تو ہوگا جہاں سے کتب مل سکیں۔ دوسری اہم جگہ کتب میلہ بھی ہوسکتی ہے، جہاں سے کئی اہم موضوعات پر بارعایت کتابیں لے کر گھر لائبریری میں سلیقے سے سجائی جاسکتی ہیں۔ کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی ایکسپو سینٹر میں سالانہ نمائش لگتی ہے۔ ان میں ضرور جائیں۔
لائبریری میں کتابوں کو موضوع کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ رکھیں۔ ہوسکے تو ان کے شیلف پر موضوع کا لیبل بھی لگادیں۔ الماری یا شیلف کے سب سے اوپر خانے میں قرآن مجید، حدیث رسول اور سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر اللہ والوں کیسیرت کی کتب رکھ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ اسلام پر بھی کتب رکھ دیں۔ اس کے نیچے دیگر شخصیات، معلومات، شاعری، اضافہ، کہانی، سوانح، سفرنامے، انسائیکلو پیڈیا اور لغت رکھ سکتے ہیں۔
اس ساری مشق کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ ایک ذاتی لائبریری کے مالک بن جائیں گے۔ اس سے آپ کے والدین، بہن بھائی، رشتے دار اور دوست بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔